پرائی آگ پہ روٹی نہیں بناؤں گا
میں بھیگ جاؤں گا چھتری نہیں بناؤں گا
اگر خدا نے بنانے کا اختیار دیا
عَلم بناؤں گا برچھی نہیں بناؤں گا
فریب دے کے تِرا جسم جیت لوں لیکن
میں پیڑ کاٹ کے کشتی نہیں بناؤں گا
ڈولی مِری جیون دوار کھڑی، کوئی چُنری آ کے اُڑھا جانا
شرنگھار کیے بیٹھی ہے عمر، کوئی مہندی ہاتھ رچا جانا
وہی آگ لگی جو ازل گھر میں، مِری خاک میں پھر سے لگا جانا
ٹوٹے ہیں سبھی گھر کے باسن، انہیں چاک پہ پھر سے بٹھا جانا
لپٹے ہیں مجھے جگ کے رستے، سیاں جی مِرے پردیس گئے
بھوساگر میں منجھدار پڑی، مایا دیوار گرا جانا
رونے کو بہت روئے، بہت آہ و فغاں کی
کٹتی نہیں زنجیر مگر سُود و زیاں کی
کرتے ہیں طواف آج وہ خود اپنے گھروں کا
جو سیر کو نکلے تھے کبھی سارے جہاں کی
آئیں جو یہاں اہلِ خِرد، سوچ کے آئیں
اس شہر سے ملتی ہیں حدیں شہرِ گماں کی