Friday, 30 September 2016

پرائی آگ پہ روٹی نہیں بناؤں گا

پرائی آگ پہ روٹی نہیں بناؤں گا
میں بھیگ جاؤں گا چھتری نہیں بناؤں گا
اگر خدا نے بنانے کا اختیار دیا 
عَلم بناؤں گا برچھی نہیں بناؤں گا
فریب دے کے تِرا جسم جیت لوں لیکن 
میں پیڑ کاٹ کے کشتی نہیں بناؤں گا

مجھ کو دروازے پہ ہی روک لیا جاتا ہے

مجھ کو دروازے پہ ہی روک لیا جاتا ہے
میرے آنے سے بھلا آپ کا کیا جاتا ہے 
اشک گرنے سے کوئی لفظ نہ مٹ جاۓ کہیں 
اُس کی تحریر کو عجلت میں پڑھا جاتا ہے
تُو اگر جانے لگا ہے تو پلٹ کر مت دیکھ 
موت' لکھ کر تو قلم 🖋توڑ دیا جاتا ہے'

اک حویلی ہوں اس کا در بھی ہوں

اک حویلی ہوں، اس کا در بھی ہوں
خود ہی آنگن، خود ہی شجر بھی ہوں
اپنی مستی میں بہتا دریا ہوں
میں کنارہ بھی ہوں، بھنور بھی ہوں
آسماں اور زمیں کی وُسعت دیکھ 
میں اِدھر بھی ہوں اور اُدھر بھی ہوں

جب ہم نے اپنا اپنا قبیلہ الگ کیا

جب ہم نے اپنا اپنا قبیلہ الگ کیا
رستے الگ بنا لیے، دریا الگ کیا
وہ ریت دوسروں کے مقدر کی ریت تھی
سو ہم نے اپنے نام کا صحرا الگ کیا
اس پار بُود و باش رہی ہم سے مختلف
ہم نے بھی زندگی کا قرینہ الگ کیا

آتا ہی نہیں ہونے کا یقیں کیا بات کروں

آتا ہی نہیں ہونے کا یقیں، کیا بات کروں 
ہے دور بہت وہ خواب نشیں، کیا بات کروں 
کیا بات کروں جو عکس تھا میری آنکھوں میں 
وہ چھوڑ گیا اک شام کہیں،۔ کیا بات کروں 
کیا بات کروں، جو گھڑیاں میری ہمدم تھیں 
وہ گھڑیاں ہی آزار بنیں،۔ کیا بات کروں 

میں ایک شام جو روشن دیا اٹھا لایا

میں ایک شام جو روشن دِیا اٹھا لایا
تمام شہر کہیں سے ہوا اٹھا لایا
یہ لوگ دَنگ تھے پہلی کہانیاں سن کر
میں ایک اور نیا واقعہ اٹھا لایا
طلِسمِ شام پھیلتا تھا گلیوں میں
کوئی چراغ، کوئی آئینہ اٹھا لایا

Thursday, 29 September 2016

تلخیاں اور بے بسی ویرانیاں

تلخیاں اور بے بسی ویرانیاں
چار جانب ہیں عجب حیرانیاں
پیاس جب باقی نہیں چشمے ہیں کیوں
کیا کروں دریا کی اب طغیانیاں
روح سے محروم ہے اب یہ بدن
اور کچھ راہیں بھی ہیں انجانیاں

اک شحص میری عمر کا عنوان لے گیا

اک شحص میری عمر کا عنوان لے گیا
میرے یقیں میرے سفر کا سامان لے گیا
کچھ خواب تھے کہ پھول تھے تعبیر تھی یہاں
خواہشوں سے سجا میرا گلستان لے گیا
یادوں کے پھول جس میں سجاتی رہی تھی میں
ہاتھوں سے میرے کون یہ گلدان لے گیا

زحمت کبھی کبھی تو مشقت کبھی کبھی

زحمت کبھی کبھی تو مشقت کبھی کبھی
لگتی ہے زندگی بھی مصیبت کبھی کبھی
پہلو میں جاگتی ہے محبت کبھی کبھی
آتی ہے ہاتھ درد کی دولت کبھی کبھی
اب تک تِرے بغیر میں زندہ ہوں کس طرح
ہوتی ہے اپنے آپ پر حیرت کبھی کبھی

شام کی دہلیز پر لیں درد نے انگڑائیاں

شام کی دہلیز پر لیں درد نے انگڑائیاں
جاگ اٹھے ہیں غم سبھی اور رو پڑیں تنہائیاں
راستوں پر خاک ہے، پھولوں سے خوشبو کھو گئی
دن کا اب امکاں نہیں ہے کھو گئیں رعنائیاں
جب وفا گھائل ہوئی، دنیا میں جب سائل ہوئی
گم ہوئیں خوشیاں سبھی، ہم کو ملیں رسوائیاں

Tuesday, 27 September 2016

ہوئی آغاز پھولوں کی کہانی

ہوئی آغاز پھولوں کی کہانی
وہ پہلا دل، وہ پہلی خوشگمانی
اداسی کی مہک آتی ہے مجھ سے
مِری تنہائی ہے اتنی پرانی
ہمیں دونوں کنارے دیکھنے ہیں
توجہ چاہتی ہے یہ روانی

جتنا آب و دانہ ہے

جتنا آب و دانہ ہے
اُتنا ہی ویرانہ ہے
ہم نے اپنی نیندوں کو
خوابوں سے پہچانا ہے
باغ کا تُربت ہو جانا
پھولوں کا اٹھ جانا ہے

میں جہاں تھا وہیں رہ گیا معذرت

میں جہاں تھا وہیں رہ گیا، معذرت
اے زمیں! معذرت، اے خدا! معذرت
کچھ بتاتے ہوئے، کچھ چھپاتے ہوئے
میں ہنسا، معذرت،۔ رو دیا، معذرت
خود تمہاری جگہ جا کے دیکھا ہے اور
خود سے کی ہے تمہاری جگہ معذرت

سورج نے اک نظر مرے زخموں پہ ڈال کے

سورج نے اک نظر مِرے زخموں پہ ڈال کے
دیکھا ہے مجھ کو کھڑکی سے پھر سر نکال کے
رکھتے ہی پاؤں، گھومتی چکراتی راہ نے
پھینکا ہے مجھ کو دور خلا میں اچھال کے
کیا خواہشیں زمین کے نیچے دبی رہیں
غاروں سے کچھ مجسمے نکلے وصال کے

اجڑی ہوئی بستی کی صبح و شام ہی کیا

اجڑی ہوئی بستی کی صبح و شام ہی کیا
خاک اڑانے والوں کا انجام ہی کیا
پاس سے ہو کر یوں ہی گزر جاتی ہے صبا
دیوانے کے نام کوئی پیغام ہی کیا
جو بھی تمہارے جی میں آئے کہہ ڈالو
ہم مستانے لوگ،۔ ہمارا نام ہی کیا

چاک کرتے ہیں گریباں اس فراوانی سے ہم

چاک کرتے ہیں گرِیباں اس فراوانی سے ہم
روز خلعت پاتے ہیں دربارِ عریانی سے ہم
منتخب کرتے ہیں میدانِ شکست اپنے لیے
خاک پر گِرتے ہیں لیکن اوجِ سلطانی پہ ہم
ہاں میاں! دنیا کی چم خم خوب ہے اپنی جگہ
بس ذرا گھبرا گئے ہیں دل کی وِیرانی سے ہم

دنیا سے تن کو ڈھانپ قیامت سے جان کو

دنیا سے تن کو ڈھانپ، قیامت سے جان کو
دو چادریں بہت ہیں تِری آن بان کو
اک میں ہی رہ گیا ہوں کئے سر کو بارِ دوش
کیا پوچھتے ہو بھائی! مِرے خاندان کو
جس دن سے اپنے چاک گریباں کا شور ہے
تالے لگا گئے ہیں رفوگر دکان کو

اگر شامل نہ درپردہ کسی کی آرزو ہوتی

اگر شامل نہ درپردہ کسی کی آرزو ہوتی
تو پھر اے زندگی ظالم، نہ میں ہوتا نہ تُو ہوتی
اگر حائل نہ اس رخ پر نقابِ رنگ و بو ہوتی 
کسے تابِ نظر رہتی، مجالِ آرزو ہوتی
نہ اک مرکز پہ رک جاتی، نہ یوں بے آبرو ہوتی
محبت جستجو تھی، جستجو ہی جستجو ہوتی

محبت میں جگر گزرے ہیں ایسے بھی مقام اکثر

محبت میں جگر گزرے ہیں ایسے بھی مقام اکثر
کہ خود لینا پڑا ہے اپنے دل سے انتقام اکثر
کہاں حسنِ تمامِ یاد و تکلیفِ کرم کوشی
بدل دیتی ہے دنیا اک نگاہِ ناتمام اکثر
مِری رِندی بھی کیا رِندی، مِری مستی بھی کیا مستی
مِری توبہ بھی بن جاتی ہے مے خانہ بہ جام اکثر

یادش بخیر جب وہ تصور میں آ گیا

یادش بخیر، جب وہ تصور میں آ گیا
شعر و شباب و حسن کا دریا بہا گیا
جب عشق اپنے مرکزِ اصلی پہ آ گیا
خود بن گیا حسین، دو عالم پہ چھا گیا
جو دل کا راز تھا اسے کچھ دل ہی پا گیا
وہ کر سکے بیاں، نہ ہمِیں سے کہا گیا

Monday, 26 September 2016

کس قدر روپ بدلتا ہے یہ سودائی بھی

کس قدر روپ بدلتا ہے یہ سودائی بھی
خود ہی مقتول بھی، قاتل بھی تماشائی بھی
خود کبھی اس کی محبت سے گریزاں مِرا دل
اور کبھی اس کی محبت کا تمنائی بھی
صرف احباب گزیدہ ہی نہیں ہوں کہ مجھے
دشت میں چھوڑ گئے میرے سگے بھائی بھی

کوئی خورشید جب بجھ کر مری آنکھوں میں مرتا ہے

کوئی خورشید جب بجھ کر مِری آنکھوں میں مرتا ہے
تو وحشت میں مِرے ہر سُو اندھیرا رقص کرتا ہے
جسے اوجِ ثریا پر پہنچ جانے کی جلدی ہو
وہی طائر بلندی کی حدوں سے گِر کے مرتا ہے
اکیلا چاند کیوں ہر روز میرا دل دُکھانے کو
کسی کا عکس چپکے سے مِری کھڑکی میں دھرتا ہے

لوگ خوش ہیں اور ہم کو ذات کا غم ہو رہا ہے

لوگ خوش ہیں اور ہم کو ذات کا غم ہو رہا ہے
دن بدن دنیا سے اپنا رابطہ کم ہو رہا ہے
وہ سمجھ لے جو سمجھ سکتا ہے ہم پھر کہہ رہے ہیں
کربلا میں آج کل جشنِ محرم ہو رہا ہے
اس طرف حالات کے حربے برابر بڑھ رہے ہیں
اس طرف یادوں کا دستہ پھر منظم ہو رہا ہے

خواب اتنے ہیں یہی بیچا کریں

خواب اتنے ہیں یہی بیچا کریں
اور کیا اس شہر میں دھندہ کریں
کیا ذرا سی بات کا شکوہ کریں
شکریے سے اس کو شرمندہ کریں
تو کہ ہم سے بھی نہ بولے ایک لفظ
اور ہم سب سے ترا چرچا کریں

عجب طرح سے میں صرف ملال ہونے لگا

عجب طرح سے میں صرفِ ملال ہونے لگا
جو شہر کا ہے وہی دل کا حال ہونے لگا
سب اسکی بزم میں تھے مجرموں کی طرح خموش
ہم آ گئے تو ہمیں سے سوال ہونے لگا
اب آسماں سے مجھے شکوۂ جفا بھی نہیں
ہر انقلاب مِرے حسبِ حال ہونے لگا

نہ دوستی سے رہے اور نہ دشمنی سے رہے

نہ دوستی سے رہے اور نہ دشمنی سے رہے
ہمیں تمام گِلے اپنی آگہی سے رہے
وہ پاس آئے تو موضوعِ گفتگو نہ ملے
وہ لوٹ جائے تو ہر گفتگو اسی سے رہے
ہم اپنی راہ چلے،۔۔ لوگ اپنی راہ چلے
یہی سبب ہے کہ ہم سرگراں سبھی سے رہے

کیا کروں طنز بنی جاتی ہے اب پیار کی بات

کیا کروں طنز بنی جاتی ہے اب پیار کی بات
دل کے ویرانے میں شہرِ لب و رخسار کی بات
رات جب ڈھلتی ہے، کیا جانے بکھرنا کیا ہے
وہ نہ سمجھی، تِری زلفوں کے گرفتار کی بات
اے شکستِ درِ زِنداں! یہ نظر آتا ہے کی بات
اب کے شاید نہ کریں ہم رسن و دار کی بات

خوشبو نکل پڑی ہے کھلے سر یہ کیا ہوا

خوشبو نکل پڑی ہے کھُلے سر، یہ کیا ہُوا
فصلِ جنوں کی خیر، کوئی حادثہ ہوا
اک آرزو سے کم نہیں ہر ماہ وش، مگر
مل جائے جس کرن کو دریچہ کھُلا ہوا
آباد تھا یہ دل تو نہ مہماں ہُوا کوئی
ویران ہو گیا ہے تو اک راستہ ہوا

Sunday, 25 September 2016

چاند جیسا نہ کنول جیسا ہے

چاند جیسا نہ کنول جیسا ہے
تیرا چہرہ تو غزل جیسا ہے
میرے خوابوں نے تراشا ہے جسے
تُو اسی تاج محل جیسا ہے
دن بدلتے رہے، موسم بدلے
تُو مگر آج بھی کل جیسا ہے

تیرا چہرہ ہے آئینے جیسا

تیرا چہرہ ہے آئینے جیسا
کیوں نہ دیکھوں دیکھنے جیسا 
تم کہو تو میں پوچھ لوں تم سے 
ہے سوال ایک پوچھنے جیسا 
دوست مل جائیں گے کئی لیکن 
نہ ملے گا کوئی میرے جیسا 

ہنس کے غم سہ لے مگر غم کو مقدر نہ بنا

ہنس کے غم سہہ لے مگر غم کو مقدر نہ بنا
دل کو ہر حال میں دل رہنے دے، پتھر نہ بنا
خواب تو خواب ہے ٹوٹے گا تو دل ٹوٹے گا
جھوٹے خوابوں سے کوئی زخم تو دل پر نہ بنا
ایک میں ہوں جو وفا کر کے بھی بدنام ہوا
ایک وہ ہے کہ ستم کر کے ستمگر نہ بنا

پھول کھلتے ہیں مسکرانے سے

پھول کِھلتے ہیں مسکرانے سے
مسکرا دو کسی بہانے سے
کچھ نہیں تو دعا سلام سہی
پیار بڑھتا ہے آنے جانے سے
چہرہ ہر راز کھول دیتا ہے
عشق چھپتا نہیں چھپانے سے

کھیل نہیں یہ دل کی لگی ہے درد سے اب کیوں روتا ہے

کھیل نہیں یہ دل کی لگی ہے درد سے اب کیوں روتا ہے
یہ تو محبت ہے دیوانے! اس میں یہی کچھ ہوتا ہے
عشق کا سودا، جان کا سودا، دل کا لگانا کھیل نہیں
اس کو یہ منزل ملتی ہے جو عشق میں سب کچھ کھوتا ہے
آس جو ٹوٹے دل ٹوٹے گا آس کسی سے مت رکھنا
یہ دنیا ہے اس دنیا میں کون کسی کا ہوتا ہے

عمر بھر ہو نہ سکی جرأت فریاد مجھے

عمر بھر ہو نہ سکی جرأتِ فریاد مجھے
کس سلیقے سے کِیا آپ نے برباد مجھے
ماضی و حال ہم آغوش ہوئے جاتے ہیں
دیکھنا، کس نے پکارا دل ناشاد! مجھے
آؤ! اب، ایک نئے دور کا آغاز کریں
عہدِ رفتہ کی کوئی بات نہیں یاد مجھے

مدتوں ہم نے غم سنبھالے ہیں

مدتوں ہم نے غم سنبھالے ہیں
اب تیری یاد کے حوالے ہیں
زندگی کے حسین چہرے پر
غم نے کتنے حجاب ڈالے ہیں
کچھ غم زیست کے شکار ہوئے
کچھ مسیحا نے مار ڈالے ہیں

عام فیضان غم نہیں ہوتا

عام فیضانِ غم نہیں ہوتا
ہر نفس محترم نہیں ہوتا
یا محبت میں غم نہیں ہوتا
یا مِرا شوق کم نہیں ہوتا
نامرادی نے کر دیا خوددار
اب سرِ شوق خم نہیں ہوتا

اب یہ عالم ہے کہ غم کی بھی خبر ہوتی نہیں

اب یہ عالم ہے کہ غم کی بھی خبر ہوتی نہیں
اشک بہہ جاتے ہیں، لیکن آنکھ تر ہوتی نہیں
پھر کوئی کمبخت کشتی نذرِ طوفان ہو گئی
ورنہ ساحل پر اداسی اس قدر ہوتی نہیں
تیرا اندازِ تغافل ہے، جنوں میں آج کل
چاک کر لیتا ہوں دامن اور خبر ہوتی نہیں

Saturday, 24 September 2016

ہر نخل چمن بچائیں گے ہم

خاکِ وطن کے لیے

ہر نخلِ چمن بچائیں گے ہم
اب ایک ہی دھن میں گائیں گے ہم
بجھتی ہوئی شمعوں کی لووں کو
خورشید صِفت بنائیں گے ہم
زرخیز ہوئی ہے خاکِ صحرا
گُن ابر و ہوا کے گائیں گے ہم

اٹھانی ہے تو نفرت کی اٹھا دیوار بسم اللہ

اٹھانی ہے تو نفرت کی اٹھا دیوار بسم اللہ
میری سچی محبت سے تو کر انکار بسم اللہ
کہا اس نے میری خاطر یہ کوہِ غم اٹھاؤ گے
جواباً ہم بھی بول اٹھے میرے دلدار بسم اللہ
جہاں کو چھوڑ کر ہم جب ترے کوچے میں آ بیٹھے
تو پھر سنگِ ملامت سے کیوں انکار بسم اللہ

جب پکارا ہے تجھے اپنی صدا آئی ہے

جب پکارا ہے تجھے اپنی صدا آئی ہے
دل کی دیواروں سے لپٹی ہوئی تنہائی ہے
ہے کوئی جوہری اشکوں کے نگینوں کا یہاں
آنکھ بازار میں اک جنسِ گراں لائی ہے
دل کی بستی میں تم آئے ہو تو کیا پاؤ گے
اب یہاں کوئی تماشا نہ تماشائی ہے

سنوار نوک پلک ابروؤں میں خم کر دے

سنوار نوک پلک ابروؤں میں خم کر دے
گرے پڑے ہوئے لفظوں کو محترم کر دے​
غرور اس پہ بہت سجتا ہے، مگر کہہ دو​
اسی میں اس کا بھلا ہے غرور کم کر دے​
یہاں لباس کی قیمت ہے، آدمی کی نہیں​
مجھے گلاس بڑے دے شراب کم کر دے​

ادب کی حد میں ہوں میں بے ادب نہیں ہوتا

ادب کی حد میں ہوں میں بے ادب نہیں ہوتا 
تمہارا تذکرہ، اب روز و شب نہیں ہوتا
کبھی کبھی تو چھلک پڑتی ہیں یونہی آنکھیں
اداس ہونے کا، کوئی سبب نہیں ہوتا
کئی امیروں کی محرومیاں نہ پوچھ کہ بس
غریب ہونے کا احساس اب نہیں ہوتا

ہمارے پاس تو آؤ بڑا اندھیرا ہے

ہمارے پاس تو آؤ، بڑا اندھیرا ہے
کہیں نہ چھوڑ کے جاؤ، بڑا اندھیرا ہے
اداس کر گئے بے ساختہ لطیفے بھی
اب آنسوؤں سے رُلاؤ، بڑا اندھیرا ہے
کوئی ستارہ نہیں پتھروں کی پلکوں پر
کوئی چراغ جلاؤ، بڑااندھیرا ہے

چمک رہی ہے پروں میں اڑان کی خوشبو

چمک رہی ہے پروں میں اڑان کی خوشبو
بلا رہے ہی بہت آسمان کی خوشبو
بھٹک رہی ہے پرانی دلائیاں اوڑھے
حویلیوں میں مِرے خاندان کی خوشبو
سنا کے کوئی کہنی ہمیں سلاتی تھی
دعاؤں جیسی پڑے پاندان کی خوشبو

بول رے چندا

بول رے چندا
ہم ہیں کس پتھر پر کندا
چاہتا ہے کیوں قابض ہونا
لاشوں کے انبار پہ بندا
اپنی رُوح کو چھِیل رہا ہے
پیڑ کو جیسے چھِیلے رَندا

اشکبار استعارے

اشکبار استعارے

خموشی کے کمرے کے کونے میں چھُپ کر
صدا رو رہی ہے
اندھیرے کے شیشے کے اس پار تک کر
ضیا رو رہی ہے
چراغوں کی قبروں کے کتبوں سے لگ کر
ہوا رو رہی ہے

سنگ بنیاد

سنگِ بنیاد

ہوا نے سانس لیا تھا
ابھی کہانی میں
فلک کی آنکھ میں شعلے
ابھی دہکتے تھے
تھکن کی گوند نے چپکا رکھے تھے

خدا مری نظم کیوں پڑھے گا

خدا مِری نظم کیوں پڑھے گا

غنودگی اب غنودہ تر ہے
فلک کے کھیتوں میں خامشی ہے
نئے ستارے اگانے والے کسان کو نیند کی پڑی ہے
ضعیف و بیمار چاند شب کی مہیب وسعت میں کھو چکا ہے
مگر مِری نظم مرنے والوں کا ماجرا ہے

Friday, 23 September 2016

مرے خلاف عدالت بھی تھی زمانہ بھی

مِرے خلاف عدالت بھی تھی زمانہ بھی
مجھےتو جرم بتانا بھی تھا، چھپانا بھی
اور اب کی بار تو ایسے کمان کھینچی ہے 
کہ تیر لے اڑا شانہ بھی اور نشانہ بھی
جو سانپ غیر ضروری تھے مار ڈالے ہیں 
اب آستیں بھی سلامت ہے آستانہ بھی

اس سے پہلے کہ دوبارہ یہ اٹھائی جائے

اس سے پہلے کہ دوبارہ یہ اٹھائی جائے
لاش کمرے میں نہیں دل میں چھپائی جائے
جاگنے والے اگر خواب نہيں دیکھتے ہیں 
سونے والوں پہ تو قدغن نہ لگائی جائے
خوبصورت ہو مگر اتنے حسیں تھوڑی ہو 
تم پہ ہر چیز بنا سوچے لٹائی جائے

کچھ اس لیے مجھے نقصان ہونے والا نہيں

کچھ اس لئے مجھے نقصان ہونے والا نہيں
کہ مجھ پہ اب کوئی احسان ہونے والا نہيں
شروعِ عشق میں ہم بھی یہی سمجھتے تھے 
اور اب یہ مرحلہ آسان ہونے والا نہيں
جہاں کو میری خبر ہے مجھے جہان کی ہے 
تِری طرف سے بھی انجان ہونے والا نہيں

کسی مزار پہ چادر چڑھانے والی نہيں

کسی مزار پہ چادر چڑھانے والی نہيں
تمہیں کہا تھا یہ لڑکی زمانے والی نہيں
مجھے خبر ہے اسے دھوپ سے محبت ہے 
وہ برف پوش پہاڑوں پہ آنے والی نہيں
مزے کی بات ہے سب کو بتاتا پھِرتا ہوں 
وہ ایک بات جو سب کو بتانے والی نہیں

ناؤ جب پانیوں سے نکلے گی

ناؤ جب پانیوں سے نکلے گی
زندگی دور دور پھیلے گی
یہ جو دریا سے اٹھ رہی ہے گھٹا 
ایک صحرا پہ جا کے برسے گی
آپ اپنی مُہار تھامے ہوئے
زندگانی ادھرے سے گزرے گی

پھر اداسی میں شوخ رنگ آیا

پھر اداسی میں شوخ رنگ آیا
شہر میں جب سخی کا سنگ آیا
وہ جو پلتی ہے آستینوں میں 
میں تو اس دوستی سے تنگ آیا
ایک دن تو اسے الجھنا تھا
جب ہواؤں سے دِیپ تنگ آیا

کسی مکان میں جب کوئی شمع جلتی ہے

کسی مکان میں جب کوئی شمع جلتی ہے 
ہوائے شہر کئی زاویے بدلتی ہے
اسے بتاؤ کہ چہرہ بدل کے ملنے سے 
کسی بھی شخص کی فطرت کہاں بدلتی ہے
نجانے کس نے مدد کے لیے پکارا تھا 
نجانے کس کی صدا ساتھ ساتھ چلتی ہے

دھوپ کس کے لئے گلیوں میں کھڑی رہتی ہے

دھوپ کس کیلئے گلیوں میں کھڑی رہتی ہے
ورنہ، گھر گھر تو فقط شام پڑی رہتی ہے
کوئی سندیسہ ہے اندیکھے جہانوں کا مجھے
ایک آواز سماعت میں گڑی رہتی ہے
دل کے بارے میں زیادہ نہیں معلوم مجھے 
دشتِ بنجر ہے سدا دھوپ کڑی رہتی ہے

منعکس ایک یاد ہوتی رہی

منعکس ایک یاد ہوتی رہی 
کب تِرے آئینوں سے دھوپ ڈھلی
چھُو گئی تھی کسی کی یاد مجھے
برف کی وادیوں میں صبح ہوئی
گھر کو روشن تو کر لیا تُو نے 
تیرے نینوں میں زندگی نہ ڈھلی

Thursday, 22 September 2016

یہ جو غم کا حصار رہتا ہے

یہ جو غم کا حصار رہتا ہے 
کون آنکھوں کے پار رہتا ہے
عشق جب اوڑھ لے جدائی تو
انتظار، ۔۔۔ انتظار رہتا ہے
روز کرتے ہو اک نیا وعدہ 
یوں بھلا اعتبار رہتا ہے ؟

غموں کی خوشی مار ڈالے گی اک دن

غموں کی خوشی مار ڈالے گی اک دن
یہ دیوانگی مار ڈالے گی اک دن
میں سوچوں نہ سوچوں، میں چاہوں نہ چاہوں
یہی بے بسی مار ڈالے گی اک دن
جو بچتا رہا موت سے ہر قدم پر
اسے زندگی مار ڈالے گی اک دن

مجھ کو معلوم نہیں کہ ہجر کے قاتل لمحے

مجھ کو معلوم نہیں کہ ہِجر کے قاتل لمحے
تُو نے کس آگ میں جل جل کے گزارے ہوں گے
کبھی لفظوں میں تھکن تُو نے سمیٹی ہو گی
کبھی کاغذ پہ فقط اشک اتارے ہوں گے
یہ بھی ممکن ہے کہ گزرا ہُوا لمحہ لمحہ
جس کو میں آج بھی سینے سے لگا رکھتا ہوں

سنو زندگی ہاتھ تھامو مرا

سنو زندگی
ہاتھ تھامو مِرا
مجھ کو اس راہِ پُرخار سے دور تم لے چلو
اس جگہ
میں جہاں چند لمحے سہی، جی سکوں
کہ یہاں یاد کے سائے گہرے ہیں اتنے 
کہ کچھ بھی دکھائی، سجھائی نہیں دے رہا ہے مجھے

چھوڑ کر دل میں گئی وحشی ہوا کچھ بھی نہیں

چھوڑ کر دل میں گئی وحشی ہوا کچھ بھی نہیں 
کس قدر گنجان جنگل تھا رہا کچھ بھی نہیں 
خاکِ پائے یاد تک گِیلی ہوا نے چاٹ لی 
عشق کی غرقاب بستی میں بچا کچھ بھی نہیں
آبنائے درد کے دونوں طرف ہے دشتِ خوف 
اب تو جان دینے کے سوا کچھ بھی نہیں 

جب اس کے در سے میں اٹھا ملال کوئی نہ تھا

جب اس کے در سے میں اٹھا ملال کوئی نہ تھا
کہ میری جھولی میں باقی سوال کوئی نہ تھا ‌‌‌
بہار آئی تو، اپنا سِوائے زِنداں کے
تمام شہر میں پُرسانِ حال کوئی نہ تھا
وہ دن ہی ٹھیک تھے، جب دل میں رُت بدلنے کا
گمان و خواب، یقین و خیال کوئی نہ تھا

جس جگہ تیز ہواؤں نے اتر جانا ہے

جس جگہ تیز ہواؤں نے اتر جانا ہے 
پوچھو ان سے نہ یہ ہم سے کہ کدھر جانا ہے
گامزن ہو تو گئے ایک سفر پر، لیکن
کچھ نہ معلوم ہمیں یہ کہ کدھر جانا ہے
کوئی اطراف بھی موجود نہ ہو میرے سوا
چاند پر چاند کی گاڑی سا اتر جانا ہے

اپنی توہین نہ کر میرا تماشا نہ بنا

اس کا محبوب کہ تھا
صرصرِ دشتِ وفا کا جھونکا
اس کی آغوش کو وا
اس کے شبستان کو کھلا چھوڑ گیا
سالہا سال کے بعد
ایک دن ایک بھری بزم کی تنہائی میں
اس نے اس حسنِ سیہ پوش کو چپکے سے کہا

لمحے کو بے وفا سمجھ لیجئے

لمحے کو بیوفا سمجھ لیجے
جاوِدانی ادا سمجھ لیجے
میری خاموشئ مسلسل کو
اک مسلسل گِلہ سمجھ لیجے
آپ سے میں نے جو کبھی نہ کہا
اس کو میرا کہا سمجھ لیجے

شوق کی راہ پر اگر چلئے

شوق کی راہ پر اگر چلیے
چار جانب سے بے خبر چلیے
کوئی تو کارنامہ دیں انجام
اس محلے میں نام کر چلیے
کوئے جاناں کی ناکہ بندی ہے
دلِ ہنگامہ جُو! کِدهر چلیے

یاد آنا کوئی ضروری تھا

تھی اگر آنے میں مصلحت حائل
یاد آنا کوئی ضروری تھا
دیکھئے ہو گئی غلط فہمی
مسکرانا کوئی ضروری تھا
لیجئے، بات ہی نہ یاد رہی
گنگنانا کوئی ضروری تھا

Tuesday, 20 September 2016

عجب روش سے انہیں ہم گلے لگا کے ہنسے

عجب روِش سے انہیں ہم گلے لگا کے ہنسے
کہ گُل تمام گلستاں میں کھِلکھِلا کے ہنسے
جنہیں ہے شرم وحیا اس ہنسی پہ روتے ہیں 
وہ بے حیا ہے ہنسی پر جو بے حیا کے ہنسے
غم و الم مِرا ان کی خوشی کا باعث ہے
کہ جب ہنسے وہ مجھے خوب سا رلا کے ہنسے

گلشن میں جب ادا سے وہ رنگیں ادا ہنسے

گلشن میں جب ادا سے وہ رنگیں ادا ہنسے 
غنچے کا منہ ہے کیا کہ جو پھر اے صبا ہنسے
دیوانے کو نہیں تِرے پروا، کہ اے پری
دیوانگی پہ میری کوئی روئے یا ہنسے
روئے غمِ فِراق میں برسوں ہم، اے فلک 
گر وصل کی خوشی میں کبھی اِک ذرا ہنسے

کافر تجھے اللّٰہ نے صورت تو پری دی

کافر تجھے اللّٰہ نے صورت تو پری دی
پر حیف تِرے دل میں محبت نہ ذری دی
دی تُو نے مجھے سلطنتِ بحر و بر اے عشق
ہونٹوں کو جو خشکی مِری آنکھوں کو تَری دی
خالِ لبِ شیریں کا دیا بوسہ کب اس نے
اِک چاٹ لگانے کو مِرے نیشکری دی

عشق لامحدود جب تک رہنما ہوتا نہیں

عشق لا محدود جب تک رہنما ہوتا نہیں
زندگی سے زندگی کا حق ادا ہوتا نہیں
بے کراں ہوتا نہیں، بے انتہا ہوتا نہیں
قطرہ جب تک بڑھ کے قلزم آشنا ہوتا نہیں
زندگی اک حادثہ ہے،۔ اور ایسا حادثہ
موت سے بھی ختم جس کا سلسلہ ہوتا نہیں

اللہ رے اس گلشن ایجاد کا عالم

اللہ رے، اس گلشنِ ایجاد کا عالم
جو صَید کا عالم، وہی صیاد کا عالم
اف رنگِ رخِ بانئ بے داد کا عالم
جیسے کسی مظلوم کی فریاد کا عالم
پہروں سے دھڑکنے کی بھی آتی نہیں آواز
کیا جانیے کیا ہے، دلِ ناشاد کا عالم

ترتیب نشیمن کیا ہو گی، آئین گلستاں کیا ہو گا

ترتیبِ نشیمن کیا ہو گی، آئینِ گلستاں کیا ہو گا
آغاز بہاراں! کچھ تو بتا! انجامِ بہاراں کیا ہو گا
اندازۂ طوفاں ہوتا ہے طوفاں کے قریب آ جانے سے
ساحل پہ بسیرا کرنے سے اندازۂ طوفاں کیا ہو گا
یہ گلشنِ نو ہے گلشنِ نو اے فکرِ کہن کے دیوانو
بیمار تفکر آخر اس گلشن میں غزلخواں کیا ہو گا

پھر بھی کم تھا گرچہ تیری ذات سے پایا بہت

پھر بھی کم تھا گرچہ تیری ذات سے پایا بہت
تُو ہُوا رخصت تو دل کو یہ خیال آیا بہت
سِیم و زر کیا شے ہے یہ لعل و گہر کیا چیز ہیں
آنکھ بِینا ہو تو علم و فن کا سرمایا بہت
کیا خبر کیا بات اس کے کفر میں پوشیدہ تھی
ایک کافر کیوں حرم والوں کو یاد آیا بہت

کیا پوچھتے ہو یارو حال تباہ میرا

کیا پوچھتے ہو یارو! حالِ تباہ میرا
بے مہر ہو گیا ہے وہ رشکِ ماہ میرا
تیری یہ کم نگاہی اور میرا یہ تڑپنا
تُو ہی بتا کہ کیونکر ہو گا نِباہ میرا
سودا ہوا ہے مجھ کو زلفوں کا تیری یاں تک
نشتر لگے تو نکلے لوہو سیاہ میرا

مت پوچھ کہ رحم اس کو مرے حال پہ کب تھا

مت پوچھ کہ رحم اس کو مِرے حال پہ کب تھا
اب کہنے سے کیا فائدہ، جب تھا، کبھی تب تھا
اتنا بھی تو بے چین نہ رکھ دل کو مِرے تُو
آخر یہ وہی دل ہے جو آرام طلب تھا
کیا دل کے لگانے کا سبب پوچھے ہے ہمدم
بے چیز تو البتہ نہیں کچھ تو سبب تھا

آندھی میں چراغ جل رہے ہیں

آندھی میں چراغ جل رہے ہیں
کیا لوگ ہوا میں پل رہے ہیں
اے جلتی رُتو! گواہ رہنا
ہم ننگے پاؤں چل رہے ہیں
کہساروں پہ برف جب سے پگھلی
دریا تیور بدل رہے ہیں

کیا پوچھتے ہو مجھ سے کہ میں کس نگر کا تھا

کیا پوچھتے ہو مجھ سے کہ میں کس نگر کا تھا
جلتا ہوا چراغ مِری رہ گزر کا تھا
ہم جب سفر پہ نکلے تھے تاروں کی چھانو تھی
پھر اپنے ہم رکاب اجالا سحر کا تھا
ساحل کی گیلی ریت نے بخشا تھا پیرہن
جیسے سمندروں کا سفر چشمِ تر کا تھا

صاف ظاہر ہے نگاہوں سے کہ ہم مرتے ہیں

صاف ظاہر ہے نگاہوں سے کہ ہم مرتے ہیں
منہ سے کہتے ہوۓ یہ بات مگر ڈرتے ہیں
ایک تصویرِ محبت ہے جوانی گویا
جس میں رنگوں کے عوض خونِ جگر بھرتے ہیں
عشرتِ رفتہ نے جا کر نہ کِیا یاد ہمیں
عشرتِ رفتہ کو ہم یاد کِیا کرتے ہیں

جاؤ شیشے کے بدن لے کے کدھر جاؤ گے

جاؤ، شیشے کے بدن لے کے کدھر جاؤ گے
لوگ پتھر کے ہیں چھُو لیں گے بکھر جاؤ گے
مسکراہٹ کی تمنا لیے نکلو گے، مگر
اک صفر لے کے فقط شام کو گھر جاؤ گے
چاند سونے کے پہاڑوں سے نہیں اترے گا
تم سمندر ہو،۔۔۔۔ بہرحال اتر جاؤ گے

جام چلنے لگے دل مچلنے لگے چہرے چہرے پہ رنگ شراب آ گیا

گیت/غزل

جام چلنے لگے، دل مچلنے لگے، چہرے چہرے پہ رنگ شراب آ گیا
بات کچھ بھی نہ تھی، بات اتنی ہوئی آج محفل میں وہ بے نقاب آ گیا
دلکشی کیا کہیں، نازکی کیا کہیں، تازگی کیا کہیں، زندگی کیا کہیں
ہاتھ میں ہاتھ اس کا وہ ایسے لگا، جیسے ہاتھوں میں کوئی گلاب آ گیا
حسن والے! تِری بات رکھنی پڑی، آ گئی امتحاں کی وہ آخر گھڑی
پوچھ لے، پوچھ لے، آئینہ ہی تو ہے، دیکھ لے آج تیرا جواب آ گیا

یوں صدا دیتے ہوئے تیرے خیال آتے ہیں

 یوں صدا دیتے ہوئے تیرے خیال آتے ہیں
جیسے کعبے کی کھلی چھت پہ بلال آتے ہیں
روز ہم اشکوں سے دھو آتے ہیں دیوارِ حرم
پگڑیاں روز فرشتوں کی اچھال آتے ہیں
ہاتھ ابھی پیچھے بندھے رہتے ہیں، چپ رہتے ہیں
دیکھنا یہ ہے، تجھے کتنے کمال آتے ہیں

شام نے جب پلکوں پہ آتش دان لیا

شام نے جب پلکوں پہ آتش دان لیا
کچھ یادوں نے چٹکی میں لوبان لیا
دروازوں نے اپنی آنکھیں نم کر لیں
دیواروں نے اپنا سینہ تان لیا
پیاس تو اپنی سات سمندر جیسی تھی
ناحق ہم نے بارش کا احسان لیا

Monday, 19 September 2016

پوشیدہ دیکھتی ہے کسی کی نظر مجھے

پوشیدہ دیکھتی ہے کسی کی نظر مجھے
دیکھ اے نگاہِ شوق! تُو رُسوا نہ کر مجھے
مقصد سے بے نیاز رہا ذوقِ جُستجُو
میں بے خبر ہُوا جو ہوئی کچھ خبر مجھے
میں شب کی بزم عیش کا ماتم نشیں ہوں آپ
رو رو کے کیوں رُلاتی ہے شمعِ سحر مجھے

ہے دل بتوں کے لیے اور دماغ فن کے لیے

ہے دل بتوں کے لیے اور دماغ فن کے لیے
خطا معاف ہو، کیا رہ گیا وطن کے لیے
بس انتہا ہے کہ اِک بدنصیب بیٹی نے
حیا کو بیچ دیا، باپ کے کفن کے لیے
خیال تک نہ کیا اہلِ انجمن نے کبھی
تمام رات جلی شمع انجمن کے لیے

تری بزم ناز میں تھا جو دل کبھی شمع روشن آرزو

تِری بزمِ ناز میں تھا جو دل کبھی شمعِ روشنِ آرزو
ستمِ زمانہ سے بن گیا وہی آج مدفنِ آرزو
مِرا دل ازل کا فسردہ ہے مجھے شوق سے سروکار کیا
نہ ہو اسے مۓ کدہ کی ہوس،۔ نہ دماغِ گلشنِ آرزو
وہ امیدیں خاک میں مل گئیں، وہ تمام نشہ اتر گیا
نظر اس نے کی جو عتاب کی، ہوئی برق خرمنِ آرزو

ہم اہل ظرف کہ غم خانہ ہنر میں رہے

ہم اہلِ ظرف کہ غم خانۂ ہنر میں رہے
سفالِ نم کی طرح دستِ کوزہ گر میں رہے
ہے چاک چاک رقم داستانِ گردشِ خاک
نمودِ صورتِ اشکال کیا نظر میں رہے
فرار مل نہ سکا حبسِ جسم و جاں سے کہ ہم
طلسم خانۂ تکرارِ خیر و شر میں رہے

ہر نظر پریشاں ہے ہر نفس ہراساں ہے

ہر نظر پریشاں ہے، ہر نفس ہراساں ہے
ہر خیال ویراں ہے، شہر ہے کہ زنداں ہے
دل کا امتحاں کیسا، دل تو ضبط کے ہاتوں
چارہ گر سے نادم ہے، درد سے پشیماں ہے
ایسی روشنی کی داد کس سے پائیں جُز خورشید
آندھیوں کے حلقے میں شمعِ جاں فروزاں ہے

تنگ آتے بھی نہیں کشمکش دہر سے لوگ

تنگ آتے بھی نہیں کشمکشِ دہر سے لوگ
کیا تماشا ہے کہ مرتے بھی نہیں زہر سے لوگ
شہر میں آئے تھے صحرا کی فضا سے تھک کر
اب کہاں جائیں گے آسیب زدہ شہر سے لوگ
نخلِ ہستی نظر آئے گا، کبھی نخلِ صلیب
زیست کی فال نکالیں گے کبھی زہر سے لوگ

جدا کسی سے کسی کا غرض حبیب نہ ہو

جدا کسی سے کسی کا غرض حبیب نہ ہو
یہ داغ وہ ہے کہ دشمن کو بھی نصیب نہ ہو
جدا جو ہم کو کرے اس صنم کے کوچہ سے
الٰہی! راہ میں ایسا کوئی رقیب نہ ہو
علاج کیا کریں حکماء تپِ جدائی کا
سوائے وصل کے اس کا کوئی طبیب نہ ہو

کل سنا ہم نے یہ کہتا تھا وہ اک ہمراز سے

کل سنا ہم نے یہ کہتا تھا وہ اک ہمراز سے
دیکھتا تھا مجھ کو آج اک شخص عجب انداز سے
وہ نیازِ و عِجز تھا اس کی نِگہ سے آشکار
جس طرح سے تھک رہے طائر کہیں پرواز سے
تُو جو واقف ہو تو جا اس کو بُلا لا اس گھڑی
میں تسلی دوں اسے کچھ شرم سے، کچھ ناز سے

رخ تو وہ ماہتاب سا دیکھا

رخ تو وہ ماہتاب سا دیکھا
تن بھی موتی کی آب سا دیکھا
کی نِگہ چشم پر تو اس کو بھی
ساغرِ پُر شباب سا دیکھا
پیرہن، برگِ گل پہ جوں شبنم
عرقِ تن، گلاب سا دیکھا

Sunday, 18 September 2016

اور ہیں کتنی منزلیں باقی

اور ہیں کتنی منزلیں باقی
جان کتنی ہے جسم میں باقی
زندہ لوگوں کی بود و باش میں
مردہ لوگوں کی عادتیں باقی
اس سے ملنا خوابِ ہستی میں
خواب معدوم، حسرتیں باقی

ردا اس چمن کی اڑا لے گئی

رِدا اس چمن کی اڑا لے گئی
درختوں کے پتے ہوا لے گئی
جو حرف اپنے دل کے ٹھکانوں میں تھے
بہت دُور ان کو صدا لے گئی
چلا میں صعوبت سے پُر راہ پر
جہاں تک مجھے انتہا لے گئی

کسی کو اپنے عمل کا حساب کیا دیتے

کسی کو اپنے عمل کا حساب کیا دیتے
سوال سارے غلط تھے، جواب کیا دیتے
خراب صدیوں کی بے خوابیاں تھیں آنکھوں میں
اب ان بے انت خلاؤں میں خواب کیا دیتے
ہوا کی طرح مسافر تھے دلبروں کے دل
انہیں بس ایک ہی گھر کا عذاب کیا دیتے

وہ شرر ہے کہ ستارا ہے کہ جگنو کیا ہے​

وہ شرر ہے کہ ستارا ہے کہ جگنو، کیا ہے​
اس سے مِل کر یہ یقیں آیا کہ جادو کیا ہے​
کِشتِ ویراں کو عطا کر کے نئی رت کی نوید​
اس نے احساس دیا، لمس کی خوشبو کیا ہے​
اس کو دیکھا جو نظر بھر کے تو عِرفان ہوا​
عشق کہتے ہیں کسے،۔ نعرۂ یا ہُو کیا ہے​

زخم خوردہ تو اسی کا تھا سپر کیا لیتا​

زخم خوردہ تو اسی کا تھا سِپر کیا لیتا​
اپنی تخلیق سے میں دادِ ہنر کیا لیتا​
وہ کسی اور تسلسل میں رہا محوِ کلام​
میری باتوں کا بھلا دل پہ اثر کیا لیتا​
اسکو فرصت ہی نہ تھی نازِ مسیحائی سے​
اپنے بیمار کی وہ خیر خبر کیا لیتا​

وقت کی رو کو حقیقت نہ سمجھ لیجیے گا​

وقت کی رو کو حقیقت نہ سمجھ لیجئے گا​
اس سیاست کو سیاست نہ سمجھ لیجئے گا​
یہ تعلق ہے ابھی وجہِ تعلق تو کھُلے​
ملِنے جُلنے کو محبت نہ سمجھ لیجئے گا​
یہ بھی ممکن ہے سنبھلتا نہ ہو دستار کا بوجھ​
سر جھکانے کو عقیدت نہ سمجھ لیجئے گا​

آیا ہوں سنگ و خشت کے انبار دیکھ کر

آیا ہوں سنگ و خشت کے انبار دیکھ کر
خوف آ رہا ہے سایۂ دیوار دیکھ کر
آنکھیں کھلی رہی ہیں مری انتظار میں
آئے نہ خواب دیدۂ بیدار دیکھ کر
غم کی دکان کھول کے بیٹھا ہوا تھا میں
آنسو نکل پڑے ہیں خریدار دیکھ کر

ٹوٹ جائے نہ بھرم ہونٹ ہلاؤں کیسے

ٹوٹ جائے نہ بھرم ہونٹ ہلاؤں کیسے
حال جیسا بھی ہے لوگوں کو سناؤں کیسے
خشک آنکھوں سے بھی اشکوں کی مہک آتی ہے
میں تیرے غم کو زمانے سے چھپاؤں کیسے
تیری صورت ہی میری آنکھ کا سرمایہ ہے
تیرے چہرے سے نگاہوں کو ہٹاؤں کیسے

بس کوئی ایسی کمی سارے سفر میں رہ گئی

بس کوئی ایسی کمی سارے سفر میں رہ گئی
جیسے کوئی چیز چلتے وقت گھر میں رہ گئی
کون یہ چلتا ہے میرے ساتھ بے جسم و صدا
چاپ یہ کس کی میری ہر رہگزر میں رہ گئی
گونجتے رہتے ہیں تنہائی میں بھی دیوار و در
کیا صدا اس نے مجھے دی تھی کہ گھر میں رہ گئی

Saturday, 17 September 2016

اتنا خالی تو گھر نہیں ہم ہیں

اتنا خالی تو گھر نہیں ہم ہیں
ہم نہیں ہیں، مگر نہیں ہم ہیں
چشمِ دشمن کے خوف سے پوچھو
نوکِ نیزہ پہ سر نہیں ہم ہیں
شامِ تنہائی غم نہ کر کہ تیرا
کوئی بھی ہمسفر نہیں، ہم ہیں

وہ بے کلی تھی ابابیل کی اڑانوں میں

وہ بے کلی تھی ابابیل کی اُڑانوں میں 
کہ سوگوار مِلے بادل آسمانوں میں
خبر نہیں ہے جنہیں بارشوں کے موسم کی
مزے سے بیٹھے ہیں کاغذ کے شامیانوں میں
نہ جائیں چھوڑ کے خالی بتاؤ لوگوں کو
بلائیں رہتی ہیں اُجڑے ہوۓ مکانوں میں

جب سے اسیر زلف گرہ گیر ہو گیا

جب سے اسیرِ زلفِ گِرہ گِیر ہو گیا
میں بے نیازِ حلقۂ زنجیر ہو گیا
اب واعظانِ شہر کے چہرے بھی زرد ہیں
اب دردِ عشق، کتنا ہمہ گیر ہو گیا 
نورِجہاں کوئی نہ کوئی یوں تو سب کی تھی 
دولت سے ایک شخص جہانگیر ہو گیا

مانا کہ جائیں ہم ترے در سے مگر کہاں

مانا کہ جائیں ہم تِرے در سے، مگر کہاں
بے خانماں ہیں اپنے ٹھکانے کو گھر کہاں
اس نقشِ پا کو سجدے کیے جا رہا ہوں میں
لے جائے دیکھیے یہ تِرا رہ گزر کہاں
فرقت نے تیری چھِین لیا لطفِ زندگی
وہ رات دن کہاں ہیں وہ شام و سحر کہاں

سکون قلب و شکیب نظر کی بات کرو

سکونِ قلب و شکیبِ نظر کی بات کرو
گزر گئی ہے شبِ غم، سحر کی بات کرو
دلوں کا ذکر ہی کیا ہے، ملیں، ملیں، نہ ملیں
نظر ملاؤ،۔۔ نظر سے نظر کی بات کرو
شگفتہ ہو نہ سکے گی فضائے ارض و سما
کسی کی جلوہ گہِ بام و در کی بات کرو

زباں کرتی ہے دل کی ترجمانی دیکھتے جاؤ

زباں کرتی ہے دل کی ترجمانی دیکھتے جاؤ
پکار اٹھی ہے میری بے زبانی دیکھتے جاؤ
کہاں جاتے ہو، الفت کا فسانہ چھیڑ کر، ٹھہرو
پہنچتی ہے کہاں اب یہ کہانی، دیکھتے جاؤ
تِری ظالم محبت نے جسے بدنام کر ڈالا
اُسی مظلوم کی رُسوا جوانی دیکھتے جاؤ

ڈوب کر نبض ابھر آئی ہے

ڈوب کر نبض ابھر آئی ہے
کیا کوئی ان کی خبر آئی ہے
غمزدہ غمزدہ، لرزاں لرزاں
لو شبِ غم کی سحر آئی ہے
کیا کوئی اپنا ستم یاد آیا؟
آنکھ کیوں آپ کی بھر آئی ہے

دشت دیکھے ہیں گلستاں دیکھے

دشت دیکھے ہیں، گلستاں دیکھے
تیرے جلوے یہاں، وہاں، دیکھے
اس کو کہتے ہیں تیرا لطف و کرم
خشک شاخوں پہ آشیاں دیکھے 
جو جہاں کی نظر میں کانٹا تھے
ہم نے آباد وہ مکاں دیکھے

رہی نہ یارو آخر سکت ہواؤں میں

رہی نہ یارو! آخر سکت ہواؤں میں
چار دِیے روشن ہیں چار دِشاؤں میں
کائ جمی تھی سینے میں جانے کب سے
چیخ اٹھا وہ آ کر کھُلی فضاؤں میں 
اپنی گم آوازیں، آؤ! تلاش کریں
سبز پرندوں کی سیال صداؤں میں

پیہم موج امکانی میں

پیہم موجِ امکانی میں
اگلا پاؤں نئے پانی میں
صف شفق مِرے بستر تک
ساتوں رنگ فراوانی میں
بدن وصال آہنگ ہوا سا
قبا عجیب پریشانی میں

ادھر کی آئے گی اک رو ادھر کی آئے گی

اِدھر کی آئے گی اک رَو اُدھر کی آئے گی
کہ میرے ساتھ تو مٹی سفر کی آئے گی
ڈھلے گی شام جہاں کچھ نظر نہ آئے گا
پھر اس کے بعد بہت یاد گھر کی آئے گی
نہ کوئی جا کے اسے دُکھ مِرے سنائے گا
نہ کام دوستی اب شہر بھر کی آئے گی

جب لگیں دل پہ نینوں کے بان غزل تب ہوتی ہے

جب لگیں دل پہ نینوں کے بان غزل تب ہوتی ہے
جب حسِیں ہو کوئی مہربان، غزل تب ہوتی ہے
پیاسا پپیہا ہو، ہوائیں ہوں، دہکی ہوں نغموں کی شان
میخانہ لہکا ہو، کالی گھٹائیں ہوں، بے سدھ ہوں چھلکتے ہوں جام
کوئی ساقی ہو پھر بدگمان،۔۔ غزل تب ہوتی ہے
جب لگیں دل پہ نینوں کے بان غزل تب ہوتی ہے

سب پہ دیوانے کی نظر بھی نہیں

سب پہ دیوانے کی نظر بھی نہیں
سب سے دیوانہ بے خبر بھی نہیں
جینے والے تو جتنی سمجھے ہیں
زندگی اتنی معتبر بھی نہیں
منتظِر کا عجیب عالم ہے
اب اسے فکر منتظَر ہی نہیں

دیکھیں گے کبھی ہم زعم ترا تو نے کیا ہم کو جانا ہے

دیکھیں گے کبھی ہم زعم تِرا، تُو نے کیا ہم کو جانا ہے
اے گردشِ دوراں! ٹھہر ذرا، ہاتھوں میں ابھی پیمانا ہے
پی کر جسے ہستی جھُوم اٹھے سن کر جسے اشک چھلک اٹھے
بادہ وہی بادہ ہے اے دل!،۔۔۔۔ افسانا وہی افسانا ہے
احساس تو ہے ان کو بھی مگر کچھ اور ہی ہے اندازِ نظر
کچھ فکرِ جمالِ شمع بھی ہے، کچھ فکر پرِ پروانا ہے

مرنا لگا رہے گا یہاں جی تو لیجیے

مرنا لگا رہے گا یہاں جی تو لیجیے
ایسا بھی کیا پرہیز، ذرا سی تو لیجیے
اب رِند بچ رہے ہیں ذرا تیز رقص ہو
محفل سے اٹھ لیے ہیں نمازی تو لیجیے
پتوں سے چاہتے ہو بجیں ساز کی طرح
پیڑوں سے پہلے آپ اداسی تو لیجیے

آج سڑکوں پر لکھے ہیں سیکڑوں نعرے نہ دیکھ

آج سڑکوں پر لکھے ہیں سیکڑوں نعرے نہ دیکھ
گھَور اندھیرا دیکھ، تُو آکاش کے تارے نہ دیکھ
ایک دریا ہے یہاں پر دُور تک پھیلا ہوا
آج اپنے بازوؤں کو دیکھ، پتواریں نہ دیکھ
اب یقیناً ٹھوس ہے دھرتی حقیقت کی طرح
یہ حقیقت دیکھ لیکن خوف کے مارے نہ دیکھ

یہ سارا جسم جھک کر بوجھ سے دہرا ہوا ہو گا

یہ سارا جسم جھک کر بوجھ سے دُہرا ہُوا ہو گا
میں سجدے میں نہیں تھا آپ کو دھوکا ہوا ہو گا
یہاں تک آتے آتے سُوکھ جاتی ہیں کئی ندیاں
مجھے معلوم ہے، پانی کہاں ٹھہرا ہوا ہو گا
غضب یہ ہے کہ اپنی موت کی آہٹ نہیں سُنتے
وہ سب کے سب پریشاں ہیں وہاں پر کیا ہوا ہو گا

یہ سانحہ تو کسی دن گزرنے والا تھا

یہ سانحہ تو کسی دن گزرنے والا تھا
میں بچ بھی جاتا تو اک روز مرنے والا تھا
تِرے سلوک، تِری آگہی کی عمر دراز
مِرے عزیز! مِرا زخم بھرنے والا تھا
بلندیوں کا نشہ ٹوٹ کر بکھرنے لگا
مِرا جہاز زمیں پر اترنے والا تھا

نئی ہواؤں کی صحبت بگاڑ دیتی ہے

نئی ہواؤں کی صحبت بگاڑ دیتی ہے
کبوتروں کو کھُلی چھت بگاڑ دیتی ہے 
جو جُرم کرتے ہیں اتنے بُرے نہیں ہوتے
سزا نہ دے کے عدالت بگاڑ دیتی ہے 
مِلانا چاہا ہے انساں کو جب بھی انساں سے
تو سارے کام سیاست بگاڑ دیتی ہے 

دل کے زخم چھپاؤ گے کب تک کب تک بات بناؤ گے

دل کے زخم چھپاؤ گے کب تک، کب تک بات بناؤ گے
راہیؔ جی! لوگوں نے جو پوچھا، کس کا نام بتاؤ گے؟
اپنے پاؤں کے چھالے دیکھو، صحرا تو سب دیکھ لیے
چلتے چلتے تھک گئے ہو گے، بولو کب گھر جاؤ گے
میں کہتا ہوں اپنے آنکھوں کے دروازے بند کرو
ورنہ پھر سپنے دیکھو گے، پھر ان سے شرماؤ گے

سچ تو یہ ہے اپنی وحشت ناکام ہوئی

سچ تو یہ ہے اپنی وحشت ناکام ہوئی
اس کی گلی یارو! ناحق بدنام ہوئی
رفتہ، رفتہ، وقت کا نِشتر تیز ہوا
دِھیرے دِھیرے درد کی دولت عام ہوئی
مشکل سے اپنے غم پر ہنسنا آیا
مشکل سے یہ چنچل ہرنی رام ہوئی

مضمحل ہارا ہوا تنہا ملا

مضمحل ہارا ہوا، تنہا مِلا
جو مِلا اس شہر میں ایسا مِلا
کھِنچ گئے ہیں اس قدر اب فاصلے
اپنے پائیں باغ میں صحرا مِلا
کل جن آنکھوں میں اُگا کرتے تھے خواب
آج ان میں کل کا اندیشہ مِلا

Friday, 16 September 2016

بیچ چوراہے ہوئے جاتے ہیں ہم خود نیلام

بیچ چوراہے ہوئے جاتے ہیں ہم خود نیلام
عصرِ حاضر کے بہی خواہوں پہ کیسا الزام
خون رلاتے ہیں ہمیں کاغذی سرمائے کے بھوت
ایسا لگتا ہے کہ بکتے ہیں ممالک بے دام
کھل رہے ہیں نئے مقتل بھی انہیں کے دم سے
جن کو رہتا ہے فقط عظمتِ انسان سے کام

سو بار فرطِ شوق سے بھنورا چکے ہیں ہم

سو بار فرطِ شوق سے بھنورا چکے ہیں ہم
آبادیاں بدن کی بھی کھنڈرا چکے ہیں ہم
تیری طلب کسے ہے یہاں بادِ آگہی
اس عہدِ بے حواس کو لچرا چکے ہیں ہم
لینا ہے تم سے کیا ہمیں اے شب کے راہیو
اک اپنی زندگی کو تو سحرا چکے ہیں ہم

میرے جیسے بن جاؤ گے جب عشق تمہیں ہو جائے گا

میرے جیسے بن جاؤ گے، جب عشق تمہیں ہو جائے گا
دیواروں سے سر ٹکراؤ گے جب عشق تمہیں ہو جائے گا
ہر بات گوارا کر لو گے،۔۔ منت بھی اتارا کر لو گے
تعویزیں بھی بندھواؤ گے جب عشق تمہیں ہو جائے گا
تنہائی کے جھولے جھولو گے، ہر بات پرانی بھولو گے
آئینے سے تم گھبراؤ گے جب عشق تمہیں ہو جائے گا

وہ انجمن میں رات بڑی شان سے گئے

وہ انجمن میں رات بڑی شان سے گئے
ایمان چیز کیا تھی، کئی جان سے گئے
میں تو چھپا ہوا تھا ہزاروں نقاب میں
لیکن اکیلے دیکھ کے پہچان سے گئے
وہ شمع بن کے خود ہی اکیلے جلا کیا
پروانے کل کی رات پریشان سے گئے

ہمیں کر کے سمندر کے حوالے

ہمیں کر کے سمندر کے حوالے
وہ کیوں چپ چاپ اپنا راستا لے
پرندے اب کہاں مسکن بنائیں؟
کہ انسانوں نے جنگل کاٹ ڈالے
کسی مجذوب نے کیا سچ کہا تھا
جو کچھ پانا ہے تو ماں کی دعا لے

جو آگ کا دریا مرے رستے میں کھڑا ہے

جو آگ کا دریا مِرے رستے میں کھڑا ہے
وہ میرے تخیل کی حدوں سے بھی بڑا ہے
سویا ہے جو سر وقت کی دہلیز پہ رکھ کر
وہ نیند کے طوفاں سے بہت دیر لڑا ہے
وہ جو مِری نس نس میں دکھن گھول رہا ہے
وہ ہجر کا خنجر مِرے سینے میں گڑا ہے

ہماری آنکھ میں جس غم کی لو رکھی ہوئی ہے

ہماری آنکھ میں جس غم کی لَو رکھی ہوئی ہے
اسی کے دَم سے اندھیروں میں روشنی ہوئی ہے
یہ حشر کس نے اٹھایا ہے میری بستی پر
گلی گلی مِری بستی کی ماتمی ہوئی ہے
مِرے شعور پہ صدیوں کا زنگ تھا شاید
اس آگہی سے مِری جان پر بنی ہوئی ہے

دہکتے دن میں عجب لطف اٹھایا کرتا تھا

دہکتے دن میں عجب لطف اٹھایا کرتا تھا
میں اپنے ہاتھ کا تِتلی پہ سایہ کرتا تھا
اگر میں پوچھتا بادل کدھر کو جاتے ہیں
جواب میں کوئی آنسو بہایا کرتا تھا 
یہ چاند ضعف سے جسکی زباں نہیں کھلتی
کبھی یہ چاند کہانی سنایا کرتا تھا

پانی آنکھ میں بھر کر لایا جا سکتا ہے

پانی آنکھ میں بھر کر لایا جا سکتا ہے
اب بھی جلتا شہر بچایا جا سکتا ہے
ایک محبت اور وہ بھی ناکام محبت
لیکن اس سے کام چلایا جا سکتا ہے 
دل پر پانی پینے آتی ہیں امیدیں
اس چشمے میں زہر ملایا جا سکتا ہے

آدھوں کی طرف سے کبھی پونوں کی طرف سے

آدھوں کی طرف سے کبھی پونوں کی طرف سے
آوازے کسے جاتے ہیں بونوں کی طرف سے
حیرت سے سبھی خاک زدہ دیکھ رہے ہیں
ہر روز زمیں گھٹتی ہے کونوں کی طرف سے
آنکھوں میں لیے پھرتے ہیں اس دربدری میں
کچھ ٹوٹے ہوئے خواب کھلونوں کی طرف سے

جو چیز تھی کمرے میں وہ بے ربط پڑی تھی

جو چیز تھی کمرے میں وہ  بے ربط پڑی تھی
تنہائیِ شب، بندِ قبا کھول رہی تھی
آواز کی دیوار بھی چپ چاپ کھڑی تھی
کھڑی سے جو دیکھا تو گلی اونگھ رہی تھی
بالوں نے تیرا لمس تو محسوس کیا تھا
لیکن یہ خبر دل نے بڑی دیر سے دی تھی

آباد شہر چھوڑ کے سنسان راستے

آباد شہر چھوڑ کے سنسان راستے
جنگل کی سمت جانے کسے ڈھونڈنے چلے
کیا پوچھتے ہو، کیسے رہے دن بہار کے؟
گر پھول بے شمار تھے، کانٹے بھی کم نہ تھے
گھر سے گلی کی سمت مِرے پاؤں جب بڑھے
دروازے پوچھنے لگے، صاحب! کدھر چلے؟

اشک پلکوں سے گرا دینا ضروری ہو گیا ہے

اشک پلکوں سے گِرا دینا ضروری ہو گیا ہے
جب تِری یادیں بھُلا دینا ضروری ہو گیا ہے
میرا بیٹا آ گیا ہے اب مِرے کاندھے تلک
اب تمہارے خط جلا دینا ضروری ہو گیا ہے
اس دلِ سادہ نے جب پوچھا کسے کہتے ہیں وصل
روتے روتے مسکرا دینا ضروری ہو گیا ہے

گلوں پہ رنگ چڑھا اور پھل رسیلے ہوئے

گلوں پہ رنگ چڑھا اور پھل رسیلے ہوئے
یہ سارے کام بہاراں! تِرے وسیلے ہوئے
نحیف باپ نے گُردہ فروخت کر ڈالا
پھر اسکے بعد ہی بیٹی کے ہاتھ پیلے ہوئے
برس رہا ہے ہر اک سمت ایک جادو سا
ہوں میرے گھر کے دروبام جیسے کِیلے ہوئے

میں سوچتا رہتا ہوں دماغوں میں نہیں جو

میں سوچتا رہتا ہوں دماغوں میں نہیں جو
ہے کون سا وہ پھول کہ باغوں میں نہیں جو
ہوتی ہے کسی دیدۂ نم ناک کی لَو سے 
وہ روشنی کیسی ہے چراغوں میں نہیں جو 
دیکھو نہ مِرا جسم، مِری روح جلی تھی 
یہ داغ ہے وہ جِلد کے داغوں میں نہیں جو

پھاگن چیتر کے آتے ہی

پھاگن چیتر کے آتے ہی

پھاگن چیتر کے آتے ہی 
بیلیں رنگ برنگے پھولوں سے بھر جاتی ہیں 
شام کی آنکھیں سپنوں سے 
دن کے نتھنے 
خوشبو کی لپٹوں سے 
دیواریں چہروں اور دریچوں سے 

رات آئی ہے شام سے پہلے

رات آئی ہے شام سے پہلے
دن ڈھلا اختتام سے پہلے
میں نے دیکھے تھے اجنبی سائے
شہر میں قتلِ عام سے پہلے 
بے محبت ہی مار ڈالی گئی
شاہ زادی غلام سے پہلے

درد کے پیلے گلابوں کی تھکن باقی رہی

درد کے پیلے گلابوں کی تھکن باقی رہی
جاگتی آنکھوں میں خوابوں کی تھکن باقی رہی
پانیوں کا جسم سہلاتی رہی پر ہوا مگر
ٹوٹتے بنتے حبابوں کی تھکن باقی رہی
دید کی آسودگی میں کون کیسے دیکھتا
درمیاں کتنے حجابوں کی تھکن باقی رہی

وہ کہیں تھا کہ نہ تھا فرض کریں

وہ کہیں تھا کہ نہ تھا، فرض کریں
اُس دریچے کو کھُلا فرض کریں
کوئی بھی چیز جلا کر گھر کی
دل میں آتا ہے، دِیا فرض کریں
در و دیوار سے ہٹ کر کسی روز
گھر، کوئی اور جگہ فرض کریں

تو نہیں ہے تو دوست کیا غم ہے

تُو نہیں ہے تو دوست کیا غم ہے
دل میں تیری جگہ تِرا غم ہے
دل میں جو زہر ہے وہ زہر نہیں
مدتوں کا رُکا ہوا غم ہے 
زخم مائل بہ اندمال نہیں
اور یہ غم زخم سے بڑا غم ہے

یہ میز یہ کتاب یہ دیوار اور میں

یہ میز، یہ کتاب، یہ دیوار اور میں
کھڑکی میں زرد پھولوں کا انبار اور میں
ہر شام اس خیال سے ہوتا ہے جی اداس
پنچھی تو جا رہے ہیں افق پار اور میں 
اک عمر اپنی اپنی جگہ پر کھڑے رہے
اک دوسرے کے خوف سے دیوار اور میں

بلا کی پیاس تھی حد نظر میں پانی تھا

بلا کی پیاس تھی،۔ حدِ نظر میں پانی تھا
کہ آج خواب میں صحرا تھا گھر میں پانی تھا
پھر اُس کے بعد مِری رات، بے مثال ہوئی
اُدھر وہ شعلہ بدن تھا، اِدھر میں پانی تھا
نہ جانے خاک کے مژگاں پہ آبشار تھا کیا
مِرا قصور تھا، میرے شرر میں پانی تھا

اگرچہ آج مری چشم تر میں آوے ہے

اگرچہ آج مِری چشمِ تر میں آوے ہے
زہے نصیب کوئی اپنے گھر میں آوے ہے
اُتار دیوے ہے قالب میں سارے صیغوں کو
خیالِ یار ’اُدھر‘ سے ’اِدھر‘ میں آوے ہے
کبھی کبھی تو بجائے ہمارے، شام ڈھلے
اُداسیوں کا جنازہ ہی گھر میں آوے ہے

سارے آثار سب امکان بدل جاتے ہیں

سارے آثار، سب امکان بدل جاتے ہیں
لفظ رہ جاتے ہیں، پیمان بدل جاتے ہیں
گرد ہٹتی ہے صحیفوں سے مگر اسکے بعد
دیکھتے دیکھتے جُزدان بدل جاتے ہیں 
ایک آذر کو قلق ہے کہ صنم خانوں میں
بُت بدلتے نہیں، ایمان بدل جاتے ہیں

عجیب کار زیاں پر لگا دیا تو نے

عجیب کارِ زیاں پر لگا دیا تُو نے
تماشہ گر تھا، تماشا بنا دیا تُو نے
میں عین خواب میں تجھ سے مُکرنے والا تھا
مجھے خبر ہی نہیں، کب جگا دیا تُو نے
ابھی تو رات کی اندھی گلی کے وسط میں تھا
کہاں پہ لا کے بجھایا مِرا دِیا تُو نے

اب کے خزاں نے ایسے اڑایا ادھر ادھر

اب کے خزاں نے ایسے اُڑایا اِدھر اُدھر
پتوں کی طرح ہم کو بکھیرا اِدھر اُدھر
اک دن ٹھہر گئی تھی کسی پر ہماری آنکھ
اُس دن کے بعد ہم نے نہ دیکھا اِدھر اُدھر
دِینارِ عشق جس طرح چاہے اچھال لو
لکھا ملے گا نام ہمارا، اِدھر، اُدھر

سینے کی خانقاہ میں آنے نہیں دیا

سینے کی خانقاہ میں آنے نہیں دیا
ہم نے اُسے چراغ جلانے نہیں دیا
دُزدانِ نِیم شب نے بھی حِیلے بہت کیے
لیکن کسی کو خواب چُرانے نہیں دیا
اب کے شکست و ریخت کا کچھ اور ہے سبب
اب کے یہ زخم تیری جفا نے نہیں دیا

ڈولی مری جیون دوار کھڑی کوئی چنری آ کے اڑھا جانا

 ڈولی مِری جیون دوار کھڑی، کوئی چُنری آ کے اُڑھا جانا

شرنگھار کیے بیٹھی ہے عمر، کوئی مہندی ہاتھ رچا جانا

وہی آگ لگی جو ازل گھر میں، مِری خاک میں پھر سے لگا جانا

ٹوٹے ہیں سبھی گھر کے باسن، انہیں چاک پہ پھر سے بٹھا جانا

لپٹے ہیں مجھے جگ کے رستے، سیاں جی مِرے پردیس گئے

بھوساگر میں منجھدار پڑی، مایا دیوار گرا جانا

رونے کو بہت روئے بہت آہ و فغاں کی

 رونے کو بہت روئے، بہت آہ و فغاں کی

کٹتی نہیں زنجیر مگر سُود و زیاں کی

کرتے ہیں طواف آج وہ خود اپنے گھروں کا

جو سیر کو نکلے تھے کبھی سارے جہاں کی

آئیں جو یہاں اہلِ خِرد، سوچ کے آئیں

اس شہر سے ملتی ہیں حدیں شہرِ گماں کی

کس کی تلاش ہے ہمیں کس کے اثر میں ہیں

کس کی تلاش ہے ہمیں، کس کے اثر میں ہیں
جب سے چلے ہیں گھر سے مسلسل سفر میں ہیں
سارے تماشے ختم ہوئے، لوگ جا چکے
اک ہم ہی رہ گئے جو فریبِ سحر میں ہیں 
ایسی تو کوئی خاص خطا بھی نہیں ہوئی
ہاں یہ سمجھ لیا تھا کہ ہم اپنے گھر میں ہیں

گر کسی چشم گہر بیں سے شناسا ہوتا

گر کسی چشمِ گہر بِیں سے شناسا ہوتا
میں وہ سِکہ تھا کہ ہر ملک میں چلتا ہوتا
شاخِ دل اب بھی لچکتی ہے اسی حسرت میں
کاش اِس پر بھی پرندہ کوئی بیٹھا ہوتا 
موجۂ بادِ خبر! گرم مزاجی اتنی
تُو جو صحراؤں میں ہوتا تو بگولہ ہوتا

مدتوں میں بہم ہوئے ماضی و حال دیر تک

مدتوں میں بہم ہوئے ماضی و حال دیر تک
ذہن میں پر فشاں رہی ، گردِ ملال دیر تک
رہ نہیں پائے گی یہی صورتِ حال دیر تک
کس کا کمال دیر تک، کس کا زوال دیر تک 
تیغ بکف سوار تو گرد اڑا کے چل دئیے 
کانپتا رہ گیا وہاں ایک نہال دیر تک

چڑیوں کے چہچہانے کا منظر کہاں گیا

چِڑیوں کے چہچہانے کا منظر کہاں گیا
صحرا میں ڈھونڈتا ہوں مِرا گھر کہاں گیا
میرے لیے تو نقدِ متاعِ حیات تھا
ظالِم وہ تیرے ہاتھ کا پتھر کہاں گیا 
پھِرتا ہوں اپنے ہاتھ میں کانٹے لیے ہوئے
میرے نصیب کا وہ گلِ تر کہاں گیا

ہیں کہاں مکاں والے کہہ رہا ہے دروازہ

ہیں کہاں مکاں والے، کہہ رہا ہے دروازہ
بوجھ کب سے تالے کا سہہ رہا ہے دروازہ
اتنے دکھ اٹھا کر ہم کب کے ڈھے گئے ہوتے
جتنا غم جدائی کا سہہ رہا ہے دروازہ 
قُفل توڑ کر کوئی اس میں آ کے بس جائے
یہ مکان خالی ہے، کہہ رہا ہے دروازہ

باغوں میں دیکھے ہیں ہم نے بانکے اور سجیلے پیڑ

باغوں میں دیکھے ہیں ہم نے بانکے اور سجیلے پیڑ
ہاتھ لگے تو مُرجھا جائیں ایسے بھی شرمیلے پیڑ
امرت ہی برسے تو شاید جنم جنم کی پیاس بجھے
جنگل جنگل سُوکھ رہے ہیں کیسے کیسے گیلے پیڑ
بہہ نکلی ہے جل کی دھارا چوٹی سے ڈھلوانوں میں
سورج کی کرنوں سے پگھلے جاتے ہیں برفیلے پیڑ

Thursday, 15 September 2016

جیسا بھی دل بجھا رہا جتنی بھی جاں جلی رہی

جیسا بھی دل بجھا رہا، جتنی بھی جاں جلی رہی 
لہجے میں بانکپن رہا، چہرے پہ تازگی رہی
عشق، غلام کی طرح، حسن کے روبرو رہا 
عقل کنیز کی طرح عشق کے گھر پڑی رہی
کتنے جگر چبا گئی، کتنے وجود کھا گئی 
پھر بھی حیات فاحشہ، کیسے بنی ٹھنی رہی

زخم دکھانے لگ جاتی ہے جان کو آنے لگ جاتی ہے

زخم دِکھانے لگ جاتی ہے، جان کو آنے لگ جاتی ہے 
رات گئے تنہائی جس دم، شور مچانے لگ جاتی ہے
عشق دماغ کی چکربازی، حسن سراسر دِید کا دھوکا 
دل کو یہ سب کہتے کہتے، عمر ٹھکانے لگ جاتی ہے
اس شرمیلی سی لڑکی سے جب بھی دل کی حالت پوچھی 
سیدھی بات نہیں کرتی ہے،۔۔ نظم سنانے لگ جاتی ہے

ڈاکٹر یہ کہتا ہے

ڈاکٹر یہ کہتا ہے
نارمل حرارت ہے
ایوریج سی شوگر ہے
ہارٹ بِیٹس پورے ہیں
ہارمون اچھے ہیں
نارمل ہے ای سی جی
نارمل ہیں بی پی، پلس

کوئی انہونا واقعہ نہیں ہے

کوئی انہونا واقعہ نہیں ہے
عشق میرے لیے نیا نہیں ہے
تجھ کو ہر بات کا پتہ نہیں ہے
تُو مِرا عشق ہے، خدا نہیں ہے
یوں نشانے نہ تاک تاک کے مار
ایک ہی دل ہے، دوسرا نہیں ہے

دروازہ بند دیکھ کے میرے مکان کا

دروازہ بند دیکھ کے میرے مکان کا
جھونکا ہوا کا کھڑکی کے پردے ہلا گیا
وہ جانِ نو بہار جدھر سے گزر گیا
پیڑوں نے پھول پتوں سے رستہ چھپا لیا
اس کے قریب جانے کا انجام یہ ہوا
میں اپنے آپ سے بھی بہت دور جا پڑا

بسمل کے تڑپنے کی اداؤں میں نشہ تھا

بسمل کے تڑپنے کی اداؤں میں نشا تھا
میں ہاتھ میں تلوار لیے جھوم رہا تھا
گھونگھٹ میں مِرے خواب کی تعبیر چھپی تھی
مہندی سے ہتھیلی میں مِرا نام لکھا تھا 
لب تھے کہ کسی پیالی کے ہونٹوں پہ جھکے تھے
اور ہاتھ کہیں گردنِ مینا میں پڑا تھا

بلاتے رہ گئے پیڑوں کے سائے

بلاتے رہ گئے پیڑوں کے سائے
پرندے باغ میں واپس نہ آئے
نہیں کھلتی کئی دن سے وہ کھڑکی
تمنا دل ہی دل میں سٹپٹائے
ندی میں ڈوبنے لگتا ہے سورج
گزر جاتے ہیں سائے سر جھکائے

ساون کے بادلوں کی طرح سے بھرے ہوئے

ساون کے بادلوں کی طرح سے بھرے ہوئے
یہ نین وہ ہیں جن سے کہ جنگل ہرے ہوئے
اے دل یہ کس سے بگڑی کہ آتی ہے فوجِ اشک
لختِ جگر کی نعش کو آگے دھرے ہوئے 
پلکیں تِری کہاں نہ صف آرا ہوئیں کہ واں
افواجِ قاہرہ کے نہ برہم پرے ہوئے

کس کے ہیں زیر زمیں دیدۂ نم ناک ہنوز

کس کے ہیں زیرِ زمیں دیدۂ نمناک ہنوز
جا بہ جا سوت ہیں پانی کے تہِ خاک ہنوز
ایک دن گھیر میں دامن کا تِرے دیکھا تھا
گِرد پھِرتے ہیں گریباں کے مِرے چاک ہنوز 
جستجو کر کے تجھ آفت کو بہم پہنچایا
باز آتے نہیں گردش سے یہ افلاک ہنوز

گلہ لکھوں میں اگر تیری بے وفائی کا

گِلہ لکھوں میں اگر تیری بیوفائی کا
لہو میں غرق سفینہ ہو آشنائی کا
زباں ہے شکر میں قاصر شکستہ بالی کے
کہ جن نے دل سے مٹایا خلش رہائی کا 
مِرے سجود کی دَیر و حرم سے گزری قدر
رکھوں ہوں دعویٰ تِرے در پہ جبہ سائی کا

اجل نے عہد میں تیرے ہی تقدیر سے یہ پیغام کیا

اجل نے عہد میں تیرے ہی تقدیر سے یہ پیغام کیا
ناز و کرشمہ دے کر اس کو مجھ کو کیوں بدنام کیا
چمن میں آتے سن کر تجھ کو بادِ سحر یہ گھبرائی
ساغر جب تک لاویں ہی لاویں توڑ سبو کو جام کیا
ناگن کا اس زلف کی مجھ سے رنگ نہ پوچھو، کیا حاصل
خواہ تھی کالی، خواہ وہ پیلی، بِس نے اپنا کام کیا

شام تک صبح کی نظروں سے اتر جاتے ہیں

شام تک صبح کی نظروں سے اتر جاتے ہیں 
اتنے سمجھوتوں پہ جیتے ہیں کہ مر جاتے ہیں
ہم تو بے نام ارادوں کے مسافر ٹھہرے 
کچھ پتا ہو تو بتائیں کہ کدھر جاتے ہیں 
گھر کی گِرتی ہوئی دیوار ہے ہم سے اچھی 
راستہ چلتے ہوئے لوگ ٹھہر جاتے ہیں

اپنے چہرے سے جو ظاہر ہے چھپائیں کیسے

اپنے چہرے سے جو ظاہر ہے چھپائیں کیسے
تیری مرضی کے مطابق نظر آئیں کیسے
گھر سجانے کا تصور تو بہت بعد کا ہے
پہلے یہ طے ہو کہ اس گھر کو بچائیں کیسے 
لاکھ تلواریں بڑھی آتی ہوں گردن کی طرف
سر جھکانا نہیں آتا تو جھکائیں کیسے

اپنے ہر ہر لفظ کا خود آئینہ ہو جاؤں گا

اپنے ہر ہر لفظ کا خود آئینہ ہو جاؤں گا 
اس کو چھوٹا کہہ کے میں کیسے بڑا ہو جاؤں گا
تم گِرانے میں لگے تھے تم نے سوچا ہی نہیں 
میں گِرا تو مسئلہ بن کر کھڑا ہو جاؤں گا
مجھ کو چلنے دو اکیلا ہے ابھی میرا سفر 
راستہ روکا گیا تو قافلہ ہو جاؤں گا

ملی ہواؤں میں اڑنے کی وہ سزا یارو

ملی ہواؤں میں اڑنے کی وہ سزا یارو
کہ میں زمین کے رشتوں سے کٹ گیا یارو
وہ بے خیال مسافر،۔۔ میں راستہ یارو
کہاں تھا بس میں مِرے اس کو روکنا یارو
مِرے قلم پہ زمانے کی گرد ایسی تھی
کہ اپنے بارے میں کچھ بھی نہ لکھ سکا یارو

Wednesday, 14 September 2016

کس کو ملی تسکین ساحل کس نے سر منجدھار کیا

کس کو ملی تسکینِ ساحل، کس نے سر منجدھار کیا 
اس طوفان سے گزرے جس نے ندی ندی کو پار کیا 
اے فرزانو! دیوانوں کے جذبۂ دل کی قدر کرو
ان کی ایک نظر نے آتش،۔ آتش کو گلزار کیا 
رنجِ محبت، رنجِ زمانہ دونوں ہم سے خائف ہیں
ہم نے سوچ سمجھ کر دل کو سرگرمِ پیکار کیا

دل مر چکا ہے اب نہ مسیحا بنا کرو

دل مر چکا ہے اب نہ مسیحا بنا کرو
یا ہنس پڑو، یا ہاتھ اٹھا کر دعا کرو
اب حسن کے مزاج سے واقف ہوا ہوں میں
اک بھول تھی جو تم سے کہا تھا وفا کرو
دل بھی صنم پرست، نظر بھی صنم پرست
کس کی ادا سہو،۔۔ تو کسے رہنما کرو

مرنا عذاب تھا کبھی جینا عذاب تھا

مرنا عذاب تھا کبھی جینا عذاب تھا 
میرا مشیر عشق سا خانہ خراب تھا 
وہ بارگاہ میری وفا کا جواز تھی
اس آستاں کی خاک مِرا ہی شباب تھا
دل بھی صنم پرست، نظر بھی صنم پرست
اس عاشقی میں خانہ ہمہ آفتاب تھا

کسی کے ہجر میں گر ہم بھی مر لیتے تو کیا لیتے

کسی کے ہجر میں گر ہم بھی مر لیتے تو کیا لیتے
نہ یہ کرتے تو کیا پاتے، یہ کر لیتے، تو کیا لیتے
یقیناً ایسی ہی کچھ صورتِ حالات ہونی تھی
نہ اس کی بے وفائی کا اثر لیتے، تو کیا لیتے 
گزر جانا تھا اس نے روند کر قدموں تلے ہم کو
مثالِ ریگ رستے میں بکھر لیتے، تو کیا لیتے

صاف جب تک نہ تیرے ذہن کے جالے ہوں گے

صاف جب تک نہ تیرے ذہن کے جالے ہوں گے
کیسے تحریر محبت کے مقالے ہوں گے 
کیا ہمیں بھی نیند آئے گی تیری خواہش پر
کیا فقط خواب ہی ہم دیکھنے والے ہوں گے 
اس طرح دشتِ محبت سے گزر جاؤں گا 
جسم زخمی نہ میرے پاؤں میں چھالے ہوں گے 

عداوتوں کا حال قربتوں میں سوچیں گے

عداوتوں کا حال قربتوں میں سوچیں گے 
مسافتوں کی تھکن منزلوں میں‌ سوچیں گے 
خزاں کے ہاتھ مجھے اس نے پھول بھیجا ہے 
وہ دوستوں میں ہے کہ دشمنوں میں سوچیں گے 
تیرے بغیر کس طرح وقت گزرے گا 
ملے گا وقت تو فرصتوں میں سوچیں گے

مرحلہ کوئی ہم نے درد کا نہیں ہارا

مرحلہ کوئی ہم نے درد کا نہیں ہارا
زخم زخم ہیں لیکن حوصلہ نہیں ہارا
دل کے ہار جانے پر ہو ملال کیوں ہم کو
تیرے در پہ ہارے ہیں، جا بجا نہیں ہارا
ایک ایک ٹکڑی پر عکس پہلے جیسا ہے
کِرچیوں میں بٹ کر بھی آئینہ نہیں ہارا

تھلوں میں چشمۂ برفاب کی طرح ہوں میں

تھلوں میں چشمۂ برفاب کی طرح ہوں میں 
خود اپنے واسطے اک خواب کی طرح ہوں میں 
نکل چکا ہوں میں تجھ سے مگر مِرے دریا
اب ایک ماہئ بے آب کی طرح ہوں میں 
مِرے بغیر تشخص تِرا بھی ہے مشکوک
تُو لفظ ہے، تِرے اعراب کی طرح ہوں میں 

کھلا یہ بھید کہ اب تو بھی ہے جہان کے ساتھ

کھُلا یہ بھید کہ اب تُو بھی ہے جہان کے ساتھ
پڑاؤ ڈال چکے، جب تِرے مکان کے ساتھ
دو منزلوں کی رفاقت کے بعد لوٹ گیا
وہ زور مارتا کب تک مِری اڑان کے ساتھ
اب انگلیوں سے نشاں فتح کا بناتے ہو
اب اپنے ہاتھ بھی کٹواؤ گے زبان کے ساتھ

Tuesday, 13 September 2016

ہونٹوں سے چھو لو تم میرا گیت امر کر دو

فلمی  گیت

ہونٹوں سے چھُو لو تم میرا گِیت امر کر دو
بن جاؤ مِیت میرے، میری پرِیت امر کر دو
نہ عمر کی سِیما ہو، نہ جنم کا ہو بندھن
جب پیار کرے کوئی تو دیکھے کیول من
نئی رِیت چلا کر تم، یہ رِیت امر کر دو

ہمسفر بن کے ہم ساتھ ہیں آج بھی، پھر بھی ہے یہ سفر اجنبی اجنبی​

ہمسفر بن کے ہم ساتھ ہیں آج بھی، پھر بھی ہے یہ سفر اجنبی اجنبی​
راہ بھی اجنبی، موڑ بھی اجنبی، جائیں گے ہم کدھر اجنبی اجنبی​
زندگی ہو گئی ہے سلگتا سفر، دور تک آ رہا ہے دھواں سا نظر​
جانے کس موڑ پر کھو گئی ہر خوشی، دے کے دردِ جگر اجنبی اجنبی​ 
ہم نے چن چن کے تنکے بنایا تھا جو، آشیاں حسرتوں سے سجایا تھا جو​
ہے چمن میں وہی آشیاں آج بھی، لگ رہا ہے مگر اجنبی اجنبی​

جب نام تیرا پیار سے لکھتی ہیں انگلیاں

جب نام تیرا پیار سے لکھتی ہیں انگلیاں 
میری طرف زمانے کی اٹھتی ہیں انگلیاں 
دامن صنم کا ہاتھ میں آیا تھا ایک پَل 
دن رات اس ایک پَل سے مہکتی ہیں انگلیاں 
جس دن سے دور ہو گئے اس دن سے ہے صنم 
بس دن تمہارے آنے کے گنتی ہیں انگلیاں 

کہاں آنسوؤں کی یہ سوغات ہو گی

کہاں آنسوؤں کی یہ سوغات ہو گی
نئے لوگ ہوں گے، نئی بات ہو گی
میں ہر حال میں مسکراتا رہوں گا
تمہاری محبت، اگر ساتھ ہو گی
چراغوں کو آنکھوں میں محفوظ رکھنا
بڑی دور تک، رات ہی رات ہو گی

ایسا لگتا ہے زندگی تم ہو

ایسا لگتا ہے زندگی تم ہو
اجنبی! کیسے اجنبی تم ہو
اب کوئی آرزو نہیں باقی
جستجو میری آخری تم ہو
لوگ آتے ہیں، لوگ جاتے ہیں
میری نگاہ میں، آج بھی تم ہو

اب کسے چاہیں کسے ڈھونڈا کریں

اب کسے چاہیں، کسے ڈھونڈا کریں
وہ بھی آخر مِل گیا، اب کیا کریں
ہلکی ہلکی بارشیں ہوتی رہیں
ہم بھی پھولوں کی طرح بھیگا کریں
آنکھ موندھے اس گلابی دھوپ میں
دیر تک بیٹھے، اسے سوچا کریں

کئی جہان ہیں ارض و سما سے آگے بھی

کئی جہان ہیں ارض و سما سے آگے بھی
سفر یہ ختم نہ ہو گا، فنا سے آگے بھی
وہ کارِ اہلِ وفا ہو،۔ کہ راہِ جرمِ جفا
ہر ایک سمت چلو انتہا سے آگے بھی
بہل نہ پائے گا دل اب فقط دلاسوں سے
مجھے نواز، دعا بدعا سے آگے بھی

پس ظلمت غم نیم شب، مجھے سوچنا

پسِ ظلمتِ غمِ نیم شب، مجھے سوچنا
ذرا سوچنا، کسی اور ڈھب مجھے سوچنا
کبھی بے سکون ہو، مضمحل ہو یہ دل تِرا
تُو اداس ہو کبھی بے سبب، مجھے سوچنا
ابھی مسکراؤ،۔۔۔ نئی نئی ہیں رفاقتیں
تمہیں چھوڑ دیں گے یہ لوگ تب مجھے سوچنا

نم ہواؤں سے بھیگتی ہوئی شام

نم ہواؤں سے بھیگتی ہوئی شام
کس کے غم میں ہے یہ بجھی ہوئی شام
اس کے چہرے پہ ہفت رنگ دھنک
مِری آنکھوں میں ہے بسی ہوئی شام
سو گیا ہے کہیں تھکا ہوا دن
جاگ اٹھی ہے اونگھتی ہوئی شام

اتنا آساں نہیں مسند پہ بٹھایا گیا میں

اتنا آساں نہیں مسند پہ بٹھایا گیا میں
شہرِ تہمت تیری گلیوں میں پھرایا گیا میں
یہ تو اب عشق میں جی لگنے لگا ہے کچھ کچھ
اس طرف پہلے پہل گھیر کے لایا گیا میں
خوف اتنا تھا کہ دیوار پکڑ کر نکلا
اس سے ملنے کیلئے صورتِ سایا گیا میں

نہ اہل تخت نہ ان کے مخالفين کے ساتھ

نہ اہلِ تخت نہ ان کے مخالفين کے ساتھ 
مِری ہيں ساری وفادارياں زمين کے ساتھ 
مجھے بھی اپنے مدينے ميں زندہ رہنا ہے 
مجھے بھی رکھنی پڑے گی منافقين کے ساتھ
اداس شام،۔۔ تھکے سائے،۔۔ غالبِ خستہ 
بڑے مزے ميں ہوں اپنے معاصرين کے ساتھ 

نہ تجھ سے ہے نہ گلہ آسمان سے ہو گا

نہ تجھ سے ہے نہ گلہ آسمان سے ہو گا
تیری جدائی کا جھگڑا جہان سے ہو گا
تمہارے میرے تعلق کا لوگ پوچھتے ہیں
کہ جیسے فیصلہ میرے بیان سے ہو گا
اگر یونہی مجھے رکھا گیا اکیلے میں
برآمد اور کوئی اس مکان سے ہو گا

جو سانس لیتا ہوں دل میں چبھن سی ہوتی ہے

جو سانس لیتا ہوں، دل میں چبھن سی ہوتی ہے
کہ شہرِ زیست میں ہر پل گھٹن سی ہوتی ہے
جو اپنی آنکھ سے سورج کو چھو نہیں سکتا
تِرے عروج پہ اس کو جلن سی ہوتی ہے
سفر نگاہ میں روشن تو خوب ہوتا ہے
سفر خیال سے لیکن تھکن سی ہوتی ہے

یہ تیری دید کا منظر ہے معجزہ تو نہیں

یہ تیری دید کا منظر ہے، معجزہ تو نہیں
کہ میرے ذہن کا یہ کوئی واہمہ تو نہیں
جو سرخ سرخ مناظر افق پہ بکھرے ہیں
نظر کا دھوکا ہے یا کوئی حادثہ تو نہیں
وہ رہگزر جو تِرے گھر کی سمت جاتی ہے
وہ چاہتوں کا مِری آخری سِرا تو نہیں

ماضی نے جو لکھی تھی وہ تحریر دیکھ لی

ماضی نے جو لکھی تھی وہ تحریر دیکھ لی
دنیا نے اپنے حال کی تصویر دیکھ لی
اب خیر ہی مناؤ، کہ شہرِ پناہ میں
پیاسی کسی کی آنکھ نے شمشیر دیکھ لی
دل نے تو کر لیا تِرے چہرے کا انتخاب
نظروں سے پوچھ لینا کہ تفسیر دیکھ لی

ساحلوں سے گو مرے حق میں بڑے اعلان آئے

ساحلوں سے گو مِرے حق میں بڑے اعلان آئے
ڈوبنا تنہا پڑا،۔۔۔ جب کبھی طوفان آئے
گھیر لیتا ہے ہمیں کو جو کوئی بحران آئے
ہر کوئی بے جان ہو تو جان میں کچھ جان آئے
محفلیں اتنی سجائیں تو کوئی آیا نہیں
گوشۂ تنہائی میں ملنے بڑے مہمان آئے

یہ مزا پائیدار تھوڑی ہے

یہ مزہ پائیدار تھوڑی ہے
وصل میں بھی قرار تھوڑی ہے
ہم قیامت کے انتظار میں ہیں
آپ کا انتظار تھوڑی ہے؟
اک گریباں بھی نہیں ہے چاک
یہ خزاں ہے، بہار تھوڑی ہے

رکھتے ہیں اپنے خوابوں کو اب تک عزیز ہم

رکھتے ہیں اپنے خوابوں کو اب تک عزیز ہم
حالانکہ اس میں ہو گئے دل کے مریض ہم
اس کے بیان سے ہوئے ہر دل عزیز ہم
غم کو سمجھ رہے تھے چھپانے کی چیز ہم
یہ کائنات تو کِسے ملتی ہے، چھوڑئیے
اپنی ہی ذات سے نہ ہوئے مستفیض ہم

اپنے لٹنے کے سبب تک پہنچے

اپنے لٹنے کے سبب تک پہنچے
سلسلے عالی نسب تک پہنچے
توڑ ڈالے گئے وہ طبقات کے بت
بت شکن، عظمتِ رب تک پہنچے
چند ہاتھوں میں ہے دولت سب کی
معجزہ کوئی کہ سب تک پہنچے

گونگے دیار سے نکل اہل سخن میں آ گئے

گونگے دیار سے نکل اہلِ سخن میں آ گئے
پاٹ کے بحرِ بے رخی اپنے وطن میں آ گئے
شبنمی دلبروں کے سنگ کاٹ کے سختیوں کے دشت
رونقِ شوق دیکھنے کوہ و دمن میں آ گئے
لذتِ نانِ خشک بھی دیتی ہے بے طرح مزا
پھر سے پرانے ذائقے بگڑے دہن میں آ گئے

چلتی دیکھی تھی آب میں ناؤ

چلتی دیکھی تھی آب میں ناؤ
میں نے ڈالی سراب میں ناؤ
کون اس کو کنارے پر لایا
ڈولی جب بھی حباب میں ناؤ
موج در موج ناچتی وحشت
ہے رواں کس حساب میں ناؤ 

تازہ ہے اس کی مہک رات کی رانی کی طرح

تازہ ہے اس کی مہک رات کی رانی کی طرح
کسی بچھڑے ہوئے لمحے کی نشانی کی طرح
جتنا دیکھو اسے تھکتی نہیں آنکھیں ورنہ
ختم ہو جاتا ہے ہر حسن کہانی کی طرح
ریگِ صحرا کا عجب رنگ ہواؤں نے کِیا
نقش سا کھنچ گیا دریا کی روانی کی طرح

بجھتے سورج نے لیا پھر یہ سنبھالا کیسا

بجھتے سورج نے لیا پھر یہ سنبھالا کیسا
اڑتی چڑیوں کے پروں پر ہے اجالا کیسا
تم نے بھی دیکھا کہ مجھ کو ہی ہوا تھا محسوس
گِرد اس کے رخ روشن کے تھا ہالا کیسا
چھٹ گیا جب مری نظروں سے ستاروں کا غبار
شوقِ رفتار نے پھر پاؤں نکالا کیسا

اور گلوں کا کام نہیں ہوتا کوئی

اور گلوں کا کام نہیں ہوتا کوئی
خوشبو کا انعام نہیں ہوتا کوئی
تھک گیا ایک کہانی سنتے سنتے میں
کیا اس کا انجام نہیں ہوتا کوئی
صحراؤں میں خاک اڑاتا پھرتا ہوں
اس کے علاوہ کام نہیں ہوتا کوئی

Monday, 12 September 2016

عمر فانی ہے آنی جانی ہے

عمر فانی ہے، آنی جانی ہے
کچھ کرے گر تو جاودانی ہے
غیض میں اور، التفات میں اور
وہ کہ ہے آگ، وہ کہ پانی ہے
بس میں مشکل سے آئے مچھلی سا
خُو یہ اس شوخ کی پرانی ہے

دل کی بستی اجاڑ سی کیوں ہے

دل کی بستی اجاڑ سی کیوں ہے
شہ نگر میں یہ کھلبلی کیوں ہے
کون سی آگ کو ملی یہ ہوا
شہر بھر میں یہ سنسنی کیوں ہے
بھاگ الجھائے جو رعایا کے
الجھنوں سے وہی بری کیوں ہے

وقت نہ پھلنے دے یارانے

وقت نہ پھلنے دے یارانے
بکھریں سب تسبیح کے دانے
تعبیریں سب پا لیتے ہیں
خدشے، خواہشیں، خواب سہانے
کم اندیش جسے سچ سمجھیں
دل کیوں ایسی بات نہ مانے

کتنی دیواریں اٹھی ہیں ایک گھر کے درمیاں

کتنی دیواریں اٹھی ہیں ایک گھر کے درمیاں
گھر کہیں گم ہو گیا دیوار و در کے درمیاں
کون اب اس شہر میں کس کی خبر گِیری کرے
ہر کوئی گم اک ہجومِ بے خبر کے درمیاں
جگمگائے گا مِری پہچان بن کر مدتوں
ایک لمحہ ان گِنت شام و سحر کے درمیاں

پار کرنا ہے ندی کو تو اتر پانی میں

پار کرنا ہے ندی کو تو اتر پانی میں
بنتی جائے گی خود ایک راہگزر پانی میں
ذوقِ تعمیر تھا ہم خانہ خرابوں کا عجب
چاہتے تھے کہ بنے ریت کا گھر پانی میں
سیلِ غم آنکھوں سے سب کچھ نہ بہا لے جائے
ڈوب جائے نہ یہ خوابوں کا نگر پانی میں

جو میرا ہے وہ تیرا بھی افسانہ ہوا تو

جو میرا ہے وہ تیرا بھی افسانہ ہوا تو
ماحول کا انداز ہی بے گانہ ہوا تو
تم قتل سے بچنے کا جتن خوب کرو ہو
قاتل کا اگر لہجہ شریفانہ ہوا تو
ساقی تو مِرا جام سدا بھرتا رہا ہے
خالی جو مِری زیست کا پیمانہ ہوا تو

دماغ عرش پہ ہے خود زمیں پہ چلتے ہیں

دماغ عرش پہ ہے خود زمیں پہ چلتے ہیں
سفر گمان کا ہے، اور یقیں پہ چلتے ہیں
ہمارے قافلہ سالاروں کے ارادے کیا
چلے تو ہاں پہ ہیں لیکن نہیں پہ چلتے ہیں
نہ جانے کون سا نشہ ہے ان پہ چھایا ہوا
قدم کہیں پہ ہیں پڑتے، کہیں پہ چلتے ہیں

یوں تو کہنے کو میں تری راہ کا پتھر نکلا

یوں تو کہنے کو میں تِری راہ کا پتھر نکلا
تُو نے ٹھوکر جو لگا دی تو میرا سر نکلا
لوگ تو جا کے سمندر کو جلا آئے ہیں
میں جسے پھونک کر آیا وہ میرا گھر نکلا
ایک وہ شخص جو پھولوں سے بھرے تھا دامن 
ہر کف گلِ میں چھپائے ہوئے خنجر نکلا

ہم ذرے ہیں خاک رہگزر کے

ہم ذرے ہیں خاکِ رہگزر کے
دیکھو ہمیں بام سے اتر کے
چپ ہو گئے یوں اسیر جیسے
جھگڑے تھے تمام بال و پر کے
اے بادِ سحر! نہ چھیڑ ہم کو
ہم جاگے ہوئے ہیں رات بھر کے

کیا بتاؤں کہ مدعا کیا ہے

کیا بتاؤں کہ مدعا کیا ہے
دل تِرے درد کے سوا کیا ہے
دور تاروں کی انجمن جیسے
زندگی دیکھنے میں کیا کیا ہے
ہر قدم پر نیا تماشا ہو
اور دنیا کا مدعا کیا ہے

Sunday, 11 September 2016

ہمیں پچھاڑ کے کیا حیثیت تمہاری تھی

ہمیں پچھاڑ کے کیا حیثیت تمہاری تھی
وہ جنگ تم بھی نہ جیتے جو ہم نے ہاری تھی
اور اب تمہیں بھی ہر اک شخص اچھا لگتا ہے
گئے دنوں میں یہی کیفیت ہماری تھی
ہمارے چہرے دمِ صبح دیکھتے آ کر
کہ ہم نے رات نہیں زندگی گزاری تھی

اے دوست دعا اور مسافت کو بہم رکھ

اے دوست! دعا اور مسافت کو بہم رکھ
یہ میری ہتھیلی ہے، یہاں پہلا قدم رکھ
ایسے تو زمانہ مجھے جینے نہیں دے گا
میں کچھ بھی نہیں تیرا مگر میرا بھرم رکھ
اس بات پہ دنیا سے مِری بنتی ہی نہیں ہے
کہتی ہے کہ تلوار اٹھا، اور قلم رکھ

دشت میں پیاس بجھاتے ہوئے مر جاتے ہیں

دشت میں پیاس بجھاتے ہوئے مر جاتے ہیں
ہم پرندے کہیں جاتے ہوئے مر جاتے ہیں
ہم ہیں سوکھے ہوئے تالاب پہ بیٹھے ہوئے ہنس
جو تعلق کو نِبھاتے ہوئے مر جاتے ہیں
گھر پہنچتا ہے کوئی اور ہمارے جیسا
ہم تِرے شہر سے جاتے ہوئے مر جاتے ہیں

میری تنہائی بڑھاتے ہیں چلے جاتے ہیں

میری تنہائی بڑھاتے ہیں، چلے جاتے ہیں
ہنس تالاب پہ آتے ہیں، چلے جاتے ہیں
اس لئے اب میں کسی کو نہیں جانے دیتا
جو مجھے چھوڑ کے جاتے ہیں، چلے جاتے ہیں
میری آنکھوں سے بہا کرتی ہے ان کی خوشبو
رفتگاں خواب میں آتے ہیں، چلے جاتے ہیں