Tuesday, 31 October 2017

کچھ تو ٹھہرے ہوئے دریا میں روانی کریں ہم

کچھ تو ٹھہرے ہوئے دریا میں روانی کریں ہم 
آؤ دنیا کی حقیقت کو کہانی کریں ہم 
اپنے موجود میں ملتے ہی نہیں ہیں ہم لوگ 
جو ہے معدوم اسے اپنی نشانی کریں ہم 
پہلے اک یار بنائیں کوئی اس کے جیسا 
اور پھر ایجاد کوئی دشمن جانی کریں ہم 

مرے ٹھہراؤ کو کچھ اور بھی وسعت دی جائے

مِرے ٹھہراؤ کو کچھ اور بھی وسعت دی جائے 
اب مجھے خود سے نکلنے کی اجازت دی جائے 
موت سے مل لیں کسی گوشۂ تنہائی میں 
زندگی سے جو کسی دن ہمیں فرصت دی جائے 
بے خد و خال سا اک چہرہ لیے پھرتا ہوں 
چاہتا ہوں کہ مجھے شکل و شباہت دی جائے 

Sunday, 29 October 2017

جس انجمن میں دیکھو بیگانے رہ گئے ہیں

جس انجمن میں دیکھو بیگانے رہ گئے ہیں 
گنتی کے لوگ جانے پہچانے رہ گئے ہیں 
کل جن حقیقتوں سے ماحول معتبر تھا 
آج ان حقیقتوں کے افسانے رہ گئے ہیں 
اب غارت چمن میں کیا رہ گیا ہے باقی 
کچھ پیرہن دریدہ دیوانے رہ گئے ہیں 

اب اسے کیا کرے کوئی آنکھوں میں روشنی نہیں

اب اسے کیا کرے کوئی آنکھوں میں روشنی نہیں 
شہر بھی اجنبی نہیں، لوگ بھی اجنبی نہیں 
ہم نے یہ سوچ کر کبھی جرأتِ عرض کی نہیں 
شکوہ بصد خلوص بھی شیوۂ دوستی نہیں 
یوں تو بڑے خلوص سے لوگ ہوئے ہیں ہمسفر 
راہ میں ساتھ چھوڑ دیں ان سے بعید بھی نہیں 

سب سمجھتے ہیں کہ ہم کس کارواں کے لوگ ہیں

سب سمجھتے ہیں کہ ہم کس کارواں کے لوگ ہیں 
پھر بھی پوچھا جا رہا ہے، ہم کہاں کے لوگ ہیں 
ملتِ بیضا نے یہ سیکھا ہے صد ہا سال میں 
یہ یہاں کے لوگ ہیں اور وہ وہاں کے لوگ ہیں 
خالی پیمانے لیے بیٹھے ہیں رندانِ کرام 
مے کدہ ان کا ہے جو پیرِ مغاں کے لوگ ہیں 

نقش ماضی کے جو باقی ہیں مٹا مت دینا

نقش ماضی کے جو باقی ہیں مٹا مت دینا 
یہ بزرگوں کی امانت ہے گنوا مت دینا 
وہ جو رزاقِ حقیقی ہے، اسی سے مانگو 
رزق برحق ہے کہیں اور صدا مت دینا 
بھیک مانگو بھی تو بچوں سے چھپا کر مانگو 
تم بھکاری ہو کہیں ان کو بتا مت دینا 

Monday, 23 October 2017

ہر کوئی اس کا خریدار ہوا چاہتا ہے

ہر کوئی اس کا خریدار ہُوا چاہتا ہے 
گرم پھر حسن کا بازار ہوا چاہتا ہے 
دیکھ لینا غم معشوق میں کڑھتے کڑھتے 
کچھ نہ کچھ اب مجھے آزار ہوا چاہتا ہے 
آنکھ للچائی ہوئی پڑتی ہے جس پر میری 
عشق اس پر مرا اظہار ہوا چاہتا ہے 

مرتے دم او بے وفا دیکھا تجھے

مرتے دم او بے وفا! دیکھا تجھے 
اک نظر دیکھا تو کیا دیکھا تجھے 
اے پری رو! کیوں نہ میں دیوانہ ہوں 
بال کھولے بارہا دیکھا تجھے 
نکہت گل بھی نہ لائی تا قفس 
چل ہوا ہو اے صبا دیکھا تجھے 

کس طرح نالہ کرے بلبل چمن کی یاد میں

کس طرح نالہ کرے بلبل چمن کی یاد میں 
گھس گئی اس کی زباں تو شکوۂ صیاد میں 
داد خواہوں کی اگر پرسش ہوئی روز جزا 
سب سے پہلے آئیں گے ہم عرصۂ فریاد میں 
کیا لپٹ جائیں تِرا قامت سمجھ کر اس کو ہم 
یہ نزاکت یہ صباحت ہے کہاں شمشاد میں 

مرے ریاض کا آخر اثر دکھائی دیا

مِرے ریاض کا آخر اثر دکھائی دیا 
چھپا تھا دل میں جو نغمہ مجھے سنائی دیا 
جہاں شناس و خود آگاہ کر دیا مجھ کو 
مِرے شعور نے وہ درد آشنائی دیا 
جو پا لیا تجھے میں خود کو ڈھونڈنے نکلا 
تمہارے قرب نے بھی زخم نارسائی دیا 

جو جنوں اختیار کرتے ہیں

جو جنوں اختیار کرتے ہیں
ہر ستم گر پہ وار کرتے ہیں
یہ نئی رُت کی آمد آمد ہے
پتے رقص بہار کرتے ہیں
سیڑھیوں میں رکا ہوا ہوں میں
چھت پہ دو پنچھی پیار کرتے ہیں

اگر انکھیوں سیں انکھیوں کو ملاؤ گے تو کیا ہو گا

اگر انکھیوں سیں انکھیوں کو ملاؤ گے تو کیا ہو گا 
نظر کر لطف کی ہم کوں جلاؤ گے تو کیا ہو گا 
تمہارے لب کی سرخی لعل کی مانند اصلی ہے 
اگر تم پان اے پیارے نہ کھاؤ گے تو کیا ہو گا 
محبت سیں کہتا ہوں طور بد نامی کا بہتر نہیں 
اگر خندوں کی صحبت میں نہ جاؤ گے تو کیا ہو گا 

خدا کے واسطے اے یار ہم سیں آ مل جا

خدا کے واسطے اے یار! ہم سیں آ مل جا 
دلوں کی کھول گھنڈی غنچے کی طرح کھل جا 
جگر میں چشم کے ہوتیاں ہیں داغ تب پتلیاں 
نظر سیں اوٹ تِرا گال جب کہ اک تِل جا 
جنوں کے جام کوں لے شیشۂ شراب کو توڑ 
خرد گلی سیں پری پیکراں کی بیدل جا 

نالاں ہوا ہے جل کر سینے میں من ہمارا

نالاں ہوا ہے جل کر سینے میں من ہمارا 
پنجرے میں بولتا ہے گرم آج اگن ہمارا 
پیری کمان کی جوں مانع نہیں اکڑ کوں 
ہے ضعف بیچ دونا اب بانکپن ہمارا 
چلتا ہے جیو جس پر جاتے ہیں اسکے پیچھے 
سودے میں عشق کے ہے اب یہ چلن ہمارا 

اور واعظ کے ساتھ مل لے شیخ

اور واعظ کے ساتھ مل لے شیخ 
کھول آپس کے بیچ کلے شیخ 
تیر سا قد کمان کر اپنا 
کھینچ فاقوں کے بیچ چلے شیخ 
چھوڑ تسبیح ہزار دانوں کی 
ہاتھ میں اپنے ایک دل لے شیخ 

نمود و بود کو عاقل حباب سمجھے ہیں

نمود و بود کو عاقل حباب سمجھے ہیں 
وہ جاگتے ہیں جو دنیا کو خواب سمجھے ہیں
کبھی برا نہیں جانا کسی کو اپنے سوا 
ہر ایک ذرے کو ہم آفتاب سمجھے ہیں
عجب نہیں ہے جو شیشوں میں بھر کے لے جائیں 
ان آنسوؤں کو فرشتے گلاب سمجھے ہیں

خود نوید زندگی لائی قضا میرے لئے

خود نوید زندگی لائی قضا میرے لیے 
شمع کشتہ ہوں فنا میں ہے بقا میرے لیے 
زندگی میں تو نہ اک دم خوش کیا ہنس بول کر 
آج کیوں روتے ہیں میرے آشنا میرے لیے 
کنجِ عزلت میں مثال آسیا ہوں گوشہ گیر 
رزق پہنچاتا ہے گھر بیٹھے خدا میرے لیے 

مرا راز دل آشکارا نہیں

مِرا رازِ دل آشکارا نہیں 
وہ دریا ہوں جس کا کنارا نہیں 
وہ گل ہوں جدا سب سے ہے جس کا رنگ 
وہ بو ہوں کہ جو آشکارا نہیں 
وہ پانی ہوں شیریں نہیں جس میں شور 
وہ آتش ہوں جس میں شرارا نہیں 

تم گل تھے ہم نکھار ابھی کل کی بات ہے

تم گل تھے ہم نکھار، ابھی کل کی بات ہے
ہم سے تھی سب بہار، ابھی کل کی بات ہے
بے گانہ سمجھو، غیر کہو، اجنبی کہو
اپنوں میں تھا شمار، ابھی کل کی بات ہے
آج اپنے پاس سے ہمیں رکھتے ہو دُور دُور
ہم بِن نہ تھا قرار، ابھی کل کی بات ہے

کیا غم ہے اگر شکوہ غم عام ہے پیارے

کیا غم ہے اگر شکوۂ غم عام ہے پیارے
تو دل کو دُکھا، تیرا یہی کام ہے پیارے
تیرے ہی تبسم کا سحر نام ہے پیارے
تو کھول دے گیسو تو بھری شام ہے پیارے
جب پیار کیا، چین سے کیا کام ہے پیارے
اس میں تو تڑپنے ہی میں آرام ہے پیارے

Sunday, 22 October 2017

نگاہ یار ہم سے آج بے تقصیر پھرتی ہے

نگاہِ یار ہم سے آج بے تقصیر پھرتی ہے 
کسی کی کچھ نہیں چلتی ہے جب تقدیر پھرتی ہے 
مرقع ہے مِری آنکھوں میں کیا یارانِ رفتہ کا 
جو نظروں کے تلے ہر ایک کی تصویر پھرتی ہے 
تِرا دیوانہ جب سے اٹھ گیا صحرائے وحشت سے 
بگولے کی طرح سے ڈھونڈھتی زنجیر پھرتی ہے 

وہ میرا درد دل کیا جانتے ہیں

وہ میرا درد دل کیا جانتے ہیں 
تڑپنے کو تماشا جانتے ہیں 
بہار گل ہے خار آنکھوں میں تجھ بن 
چمن کو ہم تو صحرا جانتے ہیں 
کہیں کیا حال دل اپنا بتوں سے 
جو ہے دل میں تمنا جانتے ہیں 

نہ پوچھ ہجر میں جو کچھ ہوا ہمارا حال

نہ پوچھ ہجر میں جو کچھ ہوا ہمارا حال 
جسے نہ عشق ہو وہ جانے کیا ہمارا حال 
یقین ہے کہ کہیں گے وہ ہم صفیروں سے 
قفس میں دیکھ گئی ہے صبا ہمارا حال 
عجب ہے اس کا جو اب تک نہیں سنا اس نے 
فسانۂ سر بازار تھا ہمارا حال 

حزیں تم اپنی کبھی وضع بھی سنوارو گے

حزیں تم اپنی کبھی وضع بھی سنوارو گے 
قمیص خود ہی گرے گی تو پھر اتارو گے
خلا نوردو! بہت ذرے انتظار میں ہیں 
جہاز کون سا پاتال میں اتارو گے
اتر کے نیچے کبھی میرے ساتھ بھی تو چلو 
بلند کھڑکیوں سے کب تلک پکارو گے

عمر بھر بہتے ہیں غم کے تند رو دھاروں کے ساتھ

عمر بھر بہتے ہیں غم کے تند رو دھاروں کے ساتھ 
جانے کیوں ہوتے ہیں اتنے ظلم فنکاروں کے ساتھ 
ابر کی صورت برستے ہیں بلند و پست پر 
ہم نہیں آنسو بہاتے لگ کے دیواروں کے ساتھ 
ذہن کے پردے پہ رقصندہ ہیں پیاسی صورتیں 
ہم نشے میں کیسے بہہ سکتے ہیں میخواروں کے ساتھ 

درد کے سیپ میں پیدا ہوئی بیداری سی

درد کے سیپ میں پیدا ہوئی بیداری سی 
رات کی راکھ میں سلگی کوئی چنگاری سی 
دیکھیے شہر میں کب باد یقیں چلتی ہے 
کو بہ کو پھیلی ہے اوہام کی بیماری سی 
موت کا وار تو میں سہہ گیا ہنستے ہنستے 
زندگی تُو ہی کوئی چوٹ لگا کاری سی 

میری جان لینے والے ترا دم نکل نہ جائے

میری جان لینے والے تِرا دم نکل نہ جائے
میرا عشق تو جواں ہے تِرا حسن ڈھل نہ جائے
مِرے حال پر کرم کر مِری زندگی کے داتا
تِرا نام لیتے لیتے مِرا دم نکل نہ جائے
نہیں خوف بجلیوں کا مجھے ڈر جو ہے تو یہ ہے
سرِ بزم بے ارادہ مِرا دل مچل نہ جائے

ساغر نہیں شراب نہیں یا گھٹا نہیں

ساغر نہیں، شراب نہیں، یا گھٹا نہیں
ان کی سیاہ زلف کے سائے میں کیا نہیں
ہمدم نہیں، عزیز نہیں، آشنا نہیں
تیرے سوا کوئی بھی مِرا آسرا نہیں
تاکید کر رہے ہیں وہ اپنی نگاہ سے
یہ ان کا خاص رنگ ہے حسنِ ادا نہیں

حیات کھینچ کے لے آئی ہے کہاں مجھ کو

حیات کھینچ کے لے آئی ہے کہاں مجھ کو
سنا رہا ہے وہ میری ہی داستاں مجھ کو
توجہ دی نہ کبھی اس کی بات پر میں نے
بنانا چاہا کئی بار راز داں مجھ کو
کسی کی شکل کسی کو نظر نہیں آتی
تمام شہر لگے ہے دھواں دھواں مجھ کو

Friday, 20 October 2017

چشم ظاہر سے رخ یار کا پردہ دیکھا

چشمِ ظاہر سے رخِ یار کا پردہ دیکھا 
آنکھیں جب پھوٹ گئیں تب یہ تماشا دیکھا 
دیکھنا یہ ہے کہ ہم نے تمہیں کیسا چاہا 
پوچھنا یہ ہے کہ تم نے ہمیں کیسا دیکھا 
پھر جلاؤ گے کبھی طالبِ دیدار کا خط 
سیکڑوں آنکھوں سے اس نے تمہیں دیکھا دیکھا

چھپ گیا یار خود نما ہو کر

چھپ گیا یار خود نما ہو کر 
رہ گئی چشمِ شوق وا ہو کر 
بیقراروں سے ان کو شرم آئی 
شوخیاں رہ گئیں حیا ہو کر 
کیا کہوں کیا ہے میرے دل کی خوشی 
تم چلے جاؤ گے خفا ہو کر 

کچھ حسینوں کی محبت بھی بری ہوتی ہے

کچھ حسینوں کی محبت بھی بری ہوتی ہے 
کچھ یہ بے چپن طبیعت بھی بری ہوتی ہے 
جیتے جی میرے نہ آئے تو نہ آئے، اب آؤ 
کیا شہیدوں کی زیارت بھی بری ہوتی ہے 
آپ کی ضد نے مجھے اور پلائی حضرت 
شیخ جی! اتنی نصیحت بھی بری ہوتی ہے 

مرے مرنے سے تم کو فکر اے دلدار کیسی ہے

مِرے مرنے سے تم کو فکر اے دلدار کیسی ہے 
تمہاری دل لگی کو محفلِ اغیار کیسی ہے 
ہمارے گھر سے جانا مسکرا کر پھر یہ فرمانا 
تمہیں میری قسم دیکھو مِری رفتار کیسی ہے 
وہ مجھ سے پوچھتے ہیں غیر سے اور تم سے کیوں بگڑی 
ذرا ہم بھی سنیں آپس میں یہ تکرار کیسی ہے 

اترنے والی دکھوں کی برات سے پہلے

اترنے والی دکھوں کی برات سے پہلے
چراغ بانٹ دو بستی میں رات سے پہلے
یوں ہی ملے گا نہ آب حیات کا چشمہ
گزرنا ہوگا لہو کی فرات سے پہلے
بشر جو آج ہے تہذیب و ارتقا کا امیں
فقط درندہ تھا عرفان ذات سے پہلے

کیا گل کھلائے دیکھئے تپتی ہوئی ہوا

کیا گل کھلائے دیکھیے تپتی ہوئی ہوا 
مسموم ہو گئی ہے مہکتی ہوئی ہوا 
یہ چیتھڑوں میں پھول یہ سرگرمِ کار لوگ 
یہ دوپہر کی دھوپ یہ جلتی ہوئی ہوا 
زندہ وہی رہے گا جسے ہو شعورِ زیست 
کہتی ہے روز رنگ بدلتی ہوئی ہوا 

اس کا نہیں ہے غم کوئ جاں سے اگر گزر گئے

اس کا نہیں ہے غم کوئی جاں سے اگر گزر گئے 
دکھ کی اندھیری قبر پر ہم بھی چراغ دھر گئے 
شان و شکوہ کیا ہوئے، قیصر و جَم کدھر گئے 
تخت الٹ الٹ گئے، تاج بکھر بکھر گئے 
فکرِ معاش نے سبھی جذبوں کو سرد کر دیا 
سڑکوں پہ دن گزر گیا ہو کے نڈھال گھر گئے

حیران سارا شہر تھا جس کی اڑان پر

حیران سارا شہر تھا جس کی اڑان پر 
پنچھی وہ پھڑ پھڑا کے گرا سائبان پر 
شاید اسی سے ذہن کا جنگل مہک اٹھے 
لفظوں کے گل کھلائیے شاخِ زبان پر 
کس دل کی راکھ جزو‌ِ رگِ سنگ ہو گئی 
سورج مکھی کا پھول کھلا ہے چٹان پر

Thursday, 19 October 2017

کیا غرض لاکھ خدائی میں ہوں دولت والے

کیا غرض لاکھ خدائی میں ہوں دولت والے
اُن کا بندہ ہوں جو بندے ہیں محبت والے
چاہیں گر چارہ، جراحت کا محبت والے
بیچیں الماس و نمک سنگِ جراحت والے
گئے جنت میں اگر سوزِ محبت والے
تو یہ جانو رہے دوزخ ہی میں جنت والے

بزم میں ذکر مرا لب پہ وہ لائے تو سہی

بزم میں ذکر مرا لب پہ وہ لائے تو سہی 
وہیں معلوم کروں ہونٹ ہلائے تو سہی 
سنگ پر سنگ ہر اک کوچہ میں کھائے تو سہی 
پر بلا سے ترے دیوانے کھائے تو سہی 
گو جنازے پہ نہیں قبر پہ آئے وہ مری 
شکوہ کیا کیجے غنیمت ہے کہ آئے تو سہی 

اس نے مارا رخ روشن کی دکھا تاب مجھے

اس نے مارا رخِ روشن کی دکھا تاب مجھے
چاہیۓ بہرِ کفن چادرِ مہتاب مجھے
کچھ نہیں چاہیۓ تجہیز کا اسباب مجھے
عشق نے کشتہ کیا صورتِ سیماب مجھے
کل جہاں سے کہ اٹھا لائے تھے احباب مجھے
لے چلا آج وہیں پھر دلِ بے تاب مجھے

چھٹ پنے ہی میں یار آفت ہے

چھٹ پنے ہی میں یار آفت ہے
کچھ بڑھا قد تو پھر قیامت ہے
ایک دل جس پہ لاکھ آفت ہے
درد ہی داغ ہے، جراحت ہے
کر نہ غفلت میں تُو بسر اس کو
ایک دو دم کی یہ جو مہلت ہے

چمن کوچہ جاناں سے یہ کیا آتی ہے

چمن کوچۂ جاناں سے یہ کیا آتی ہے
ناز کرتی ہوئی جو بادِ صبا آتی ہے
لے کے پیغام زبانی جو چلا ہے قاصد
بات بگڑی ہوئی کیا اوس کو بنا آتی ہے
کس کے میں دستِ نگاریں کا ہوں زخمی یارب
ہر گلِ زخم سے جو بوۓ حنا آتی ہے

شانہ تو چھٹا زلف پریشاں سے الجھ کر

شانہ تو چھٹا زلفِ پریشاں سے الجھ کر 
سلجھا نہ یہ دل کاکلِ پیچاں سے الجھ کر 
لیتا ہے خبر کون اسیرانِ بلا کی 
مر مر گئے تاریکیٔ زنداں سے الجھ کر 
زوروں پہ چڑھا ہے یہ مِرا پنجۂ وحشت 
دامن سے الجھتا ہے گریباں سے الجھ کر 

Wednesday, 18 October 2017

ہجر لاحق ہے کہ ہجرت ہے مجھے

ہجر لاحق ہے کہ ہجرت ہے مجھے
نیند میں چلنے کی عادت ہے مجھے
میں کسی وقت بھی مر سکتا ہوں
دوست! اندر سے محبت ہے مجھے
جا، جدائی کے سبب مت گنوا
جیسے درکار وضاحت ہے مجھے

غبار تھا غبار بھی نہیں رہا

غبار تھا، غبار بھی نہیں رہا
خدا کا انتظار بھی نہیں رہا
یہ دل تو اس کا نام کا پڑاؤ ہے
جہاں وہ ایک بار بھی نہیں رہا
فلک سے واسطہ پڑا کچھ اس طرح
زمیں کا اعتبار بھی نہیں رہا

کم کم رہا وہ پاس اور اکثر بہت ہی دور

کم کم رہا وہ پاس، اور اکثر بہت ہی دور
اک چاند سا کہیں تھا افق پر بہت ہی دور
اے آبجو! سنبھل تو ذرا دم نہ ٹوٹ جائے
دریا ہے دور، اور سمندر بہت ہی دور
بس شام کینوس میں اترنے کی دیر ہو
دل ڈوبنے لگے کہیں اندر، بہت ہی دور

بقدر ظرف محبت کا کاروبار چلے

بقدرِ ظرف محبت کا کاروبار چلے
مزہ تو جب ہے کہ ہر لمحہ ذکرِ یار چلے
تری نگاہ کے جب اہلِ دل پہ وار چلے
خزاں نصیب چمن جانبِ بہار چلے
اتر نہ جائے کہیں تیرے حسن کی رنگت
کہ تیری بزم سے اب تیرے جاں نثار چلے

شہر سے دور نیا شہر بسایا جائے

شہر سے دور نیا شہر بسایا جائے
ہوش والوں کو بھی مدھوش بنایا جائے
ایک ہی گھونٹ پلاتے ہو یہ کیا کرتے ہو
لطف تو جب ہے کہ جی بھر کے پلایا جائے
دور کرنے کے لیے تیرگیِ بزمِ حیات
اپنے سینے کا ہر اک داغ جلایا جائے

اب درد محبت مری رگ رگ میں رواں ہے

اب دردِ محبت مِری رگ رگ میں رواں ہے
صرف ایک جگہ ہو تو بتاؤں کہ یہاں ہے
اِک روز رہا تھا تِرے جلوؤں کی فضا میں
آنکھوں میں ابھی تک وہی رنگین سماں ہے
یاد آیا ہے اک وعدہ فراموشِ محبت
اب قلب کی دھڑکن پہ بھی آمد کا گماں ہے

یہ نوازش جو اشارے کی نکل آئی ہے

یہ نوازش جو اشارے کی نکل آئی ہے
کوئی صورت تو گزارے کی نکل آئی ہے
وہ مجھے دیکھ لیا کرتا ہے گاہے گاہے
آس کیا کیا نہ سہارے کی نکل آئی ہے
نیند کر دے نہ کہیں مشرق و مغرب کی حرام
چیخ اک درد کے مارے کی نکل آئی ہے

زباں پہ حرف تو انکار میں نہیں آتا

زباں پہ حرف تو انکار میں نہیں آتا 
یہ مرحلہ ہی کبھی پیار میں نہیں آتا 
کھلے گا ان پہ جو بین السطور پڑھتے ہیں 
وہ حرف حرف جو اخبار میں نہیں آتا 
سمجھنے والے یقیناً سمجھ ہی لیتے ہیں 
ہمارا درد جو اظہار میں نہیں آتا 

کبھی سفر سے کبھی اپنے گھر سے لکھتے ہیں

کبھی سفر سے، کبھی اپنے گھر سے لکھتے ہیں
وہ خط بھی لکھیں تو اب مختصر سے لکھتے ہیں
انہیں عجیب سا چسکا ہے لکھنے پڑھنے کا
تمام لوحِ بدن پر نظر سے لکھتے ہیں
عجب پرندے ہیں اوراق آسمانی پر
حکایتِ دل و جاں بال و پر سے لکھتے ہیں

ہزار حوصلہ یوں تو جہان بھر سے ملا

ہزار حوصلہ یوں تو جہان بھر سے ملا
بڑھاوا اور ہی لیکن تِری نظر سے ملا
ہوا میں اس نے اشارہ کوئی اچھال دیا
چلو یہ پھول تو اک شاخِ بے ثمر سے ملا
قدم قدم پہ ہے میرے لہو کی گل کاری
سراغ رنگ وفا میری رہگزر سے ملا

Monday, 2 October 2017

یا نبی نور ہو تم جلوۂ یزداں کی قسم

عارفانہ کلام نعتیہ کلام

یا نبیﷺ نور ہو تم جلوۂ یزداں کی قسم
جیسے تم ہو نہیں ایسا کوئی ایماں کی قسم
مرتبہ حق سے کسی اور کو ایسا نہ ملا
تاجِ خسرو کی قسم، تختِ سلیماں کی قسم
دونوں عالم میں نہیں کوئی بھی تم جیسا حسیں
ماہِ تاباں کی قسم، مہرِ درخشاں کی قسم

وہ خانماں خراب نہ کیوں در بدر پھرے

وہ خانماں خراب نہ کیوں در بدر پھرے
جس سے تِری نگاہ ملے، یا نظر پھرے
راہِ جنوں میں یوں تو ہیں لاکھوں ہی سر پھرے
یا رب مِری طرح نہ کوئی عمر بھر پھرے
رفتارِ یار کا اگر انداز بھول جائے
گلشن میں خاک اڑاتی نسیمِ سحر پھرے

ساقیا تو نے مرے ظرف کو سمجھا کیا ہے

ساقیا! تو نے مِرے ظرف کو سمجھا کیا ہے 
زہر پی لوں گا تِرے ہاتھ سے، صہبا کیا ہے
میں چلا آیا تِرا حسنِ تغافل لے کر 
اب تِری انجمنِ ناز میں رکھا کیا ہے
نہ بگولے ہیں نہ کانٹے ہیں نہ دیوانے ہیں 
اب تو صحرا کا فقط نام ہے صحرا کیا ہے

آگ دامن میں لگ جائے گی دل میں شعلہ مچل جائے گا

آگ دامن میں لگ جائے گی، دل میں شعلہ مچل جائے گا
میرا ساغر نہ چهونا کبھی، ساقیا! ہاتھ جل جائے گا
ایک دن وہ ضرور آئیں گے، درد کا سایہ ٹل جائے گا
اس زمانے کی پرواہ نہیں، یہ زمانہ بدل جائے گا
آ گیا میرا آنکھوں میں دم، اب تو جلوہ دیکھا دیجئے
آپ کی بات رہ جائے گی، میرا ارماں نکل جائے گا

کیا تھا جو گھڑی بھر کو تم لوٹ کے آ جاتے

کیا تھا جو گھڑی بھر کو تم لوٹ کے آ جاتے
بیمارِ محبت کو صورت تو دکھا جاتے
اتنا تو کرم کرتے دکھ درد مجھے دے کر
اک بار میرے آنسو دامن سے سُکھا جاتے
پھر دردِ جدائی کو محسوس نہ میں کرتا
اچھا تھا اگر مجھ کو دیوانہ بنا جاتے

اہل دیر و حرم رہ گئے

اہلِ دَیر و حرم رہ گئے 
تیرے دیوانے کم رہ گئے
ان کی ہر شے سنواری مگر 
پھر بھی زلفوں میں خم رہ گئے
دیکھ کر ان کی تصویر کو 
آئینہ بن کے ہم رہ گئے