اب اپنی رُوح کے چھالوں کا کچھ حساب کروں
میں چاہتا تھا چراغوں کو ماہتاب کروں
بُتوں سےمجھ کو اجازت اگر کبھی مل جائے
تو شہر بھر کے خداؤں کو بے نقاب کروں
میں کروٹوں کے نئے زاویے لکھوں شب بھر
ہے میرے چاروں طرف بِھیڑ گونگے بہروں کی
کسے خطیب بناؤں، کسے خطاب کروں
اس آدمی کو بس اک دُھن سوار رہتی ہے
بہت حسِیں ہے یہ دُنیا، اِسے خراب کروں
یہ زندگی، جو مجھے قرض دار کرتی ہے
کہیں اکیلے میں مل جائے تو حساب کروں
راحت اندوری
No comments:
Post a Comment