Sunday 7 April 2013

اب اپنی روح کے چھالوں کا کچھ حساب کروں

اب اپنی رُوح کے چھالوں کا کچھ حساب کروں
میں چاہتا تھا چراغوں کو ماہتاب کروں
بُتوں سےمجھ کو اجازت اگر کبھی مل جائے
تو شہر بھر کے خداؤں کو بے نقاب کروں
میں کروٹوں کے نئے زاویے لکھوں شب بھر
یہ عشق ہے تو کہاں زندگی عذاب کروں
ہے میرے چاروں طرف بِھیڑ گونگے بہروں کی
کسے خطیب بناؤں، کسے خطاب کروں
اس آدمی کو بس اک دُھن سوار رہتی ہے
بہت حسِیں ہے یہ دُنیا، اِسے خراب کروں
یہ زندگی، جو مجھے قرض دار کرتی ہے
کہیں اکیلے میں مل جائے تو حساب کروں

 راحت اندوری

No comments:

Post a Comment