Saturday 20 April 2013

ردائے زخم ہر گل پیرہن پہنے ہوئے ہے

ردائے زخم ہر گل پیرہن پہنے ہوئے ہے
جسے دیکھو وہی چُپ کا کفن پہنے ہوئے ہے
وہی سچ بولنے والا ہمارا دوست دیکھو
گلے میں طوق پاؤں میں رَسَن پہنے ہوئے ہے
اندھیری اور اکیلی رات اور دل اور یادیں
یہ جنگل جگنوؤں کا پیرہن پہنے ہوئے ہے
رہا ہو بھی چُکے سب ہم قفس کب کے مگر دل
یہ وحشی اب بھی زنجیرِ کُہن پہنے ہوئے ہے
سنا ہے ایک ایسا طائفہ ہے اہلِ دل کا
جو دیوانہ نہیں، دیوانہ پن پہنے ہوئے ہے
فرازؔ اس شہر میں کس کو دکھاؤں زخم اپنے
یہاں تو ہر کوئی مجھ سا بدن پہنے ہوئے ہے

احمد فراز

No comments:

Post a Comment