ردائے زخم ہر گل پیرہن پہنے ہوئے ہے
جسے دیکھو وہی چُپ کا کفن پہنے ہوئے ہے
وہی سچ بولنے والا ہمارا دوست دیکھو
گلے میں طوق پاؤں میں رَسَن پہنے ہوئے ہے
اندھیری اور اکیلی رات اور دل اور یادیں
رہا ہو بھی چُکے سب ہم قفس کب کے مگر دل
یہ وحشی اب بھی زنجیرِ کُہن پہنے ہوئے ہے
سنا ہے ایک ایسا طائفہ ہے اہلِ دل کا
جو دیوانہ نہیں، دیوانہ پن پہنے ہوئے ہے
فرازؔ اس شہر میں کس کو دکھاؤں زخم اپنے
یہاں تو ہر کوئی مجھ سا بدن پہنے ہوئے ہے
احمد فراز
No comments:
Post a Comment