Sunday, 7 April 2013

پھر آئینۂ عالم شاید کہ نکھر جائے

پھر آئینۂ عالم شاید کہ نِکھر جائے
پھر اپنی نظر شاید تا حدِّ نظر جائے
صحرا پہ لگے پہرے اور قُفل پڑے بَن پر
اب شہر بدر ہو کر دیوانہ کدھر جائے؟
خاکِ رہِ جاناں پر کچھ خوں تھا گِرو اپنا
اس فصل میں مُمکن ہے یہ قرض اتر جائے
دیکھ آئیں چلو ہم بھی جس بزم میں سُنتے ہیں
جو خندہ بلب آئے، وہ خاک بسر جائے
یا خوف سے درگزریں یا جاں سے گزر جائیں
مرنا ہے کہ جینا ہے اِک بات ٹھہر جائے

فیض احمد فیض

No comments:

Post a Comment