پھر آئینۂ عالم شاید کہ نِکھر جائے
پھر اپنی نظر شاید تا حدِّ نظر جائے
صحرا پہ لگے پہرے اور قُفل پڑے بَن پر
اب شہر بدر ہو کر دیوانہ کدھر جائے؟
خاکِ رہِ جاناں پر کچھ خوں تھا گِرو اپنا
دیکھ آئیں چلو ہم بھی جس بزم میں سُنتے ہیں
جو خندہ بلب آئے، وہ خاک بسر جائے
یا خوف سے درگزریں یا جاں سے گزر جائیں
مرنا ہے کہ جینا ہے اِک بات ٹھہر جائے
فیض احمد فیض
No comments:
Post a Comment