Sunday, 7 April 2013

کب ٹھہرے گا درد اے دل کب رات بسر ہو گی

کب ٹھہرے گا درد اے دل! کب رات بسر ہو گی
سنتے تھے وہ آئیں گے، سنتے تھے سحر ہو گی
کب جان لہو ہو گی، کب اشک گہر ہو گا
کس دن تری شنوائی، اے دیدۂ تر ہو گی
کب مہکے گی فصلِ گُل، کب بہکے گا میخانہ
کب صبحِ سخن ہو گی، کب شامِ نظر ہو گی
واعظ ہے نہ زاہد ہے، ناصح ہے نہ قاتل ہے
اب شہر میں یاروں کی، کس طرح بسر ہو گی
کب تک ابھی رہ دیکھیں، اے قامتِ جانانہ
کب حشر معیّن ہے، تجھ کو تو خبر ہو گی

فیض احمد فیض

No comments:

Post a Comment