حسرت ہی رہی ہے اسے ارماں ہی رہا ہے
یہ دل تو ہمیشہ سے پریشاں ہی رہا ہے
رہنے نہ دیا اس کو ہواؤں نے کہیں کا
خوشبو کی طرح سب سے گریزاں ہی رہا ہے
ہم نے بھی کبھی اس کے رفو کا نہیں سوچا
ویسے بھی سدا چاک گریباں ہی رہا ہے
منسُوب ہر اِک میری حکایت ہے اسی سے
افسانۂ ہستی کا وہ عُنواں ہی رہا ہے
چاہا بھی تو اس حد سے وہ آگے نہیں آیا
اِتنا ہے کہ نزدیکِ رگِ جاں ہی رہا ہے
سب کچھ کیا باقیؔ نے مگر دل نہیں توڑے
کافر تھا مگر پھر بھی مسلماں ہی رہا ہے
یہ دل تو ہمیشہ سے پریشاں ہی رہا ہے
رہنے نہ دیا اس کو ہواؤں نے کہیں کا
خوشبو کی طرح سب سے گریزاں ہی رہا ہے
ہم نے بھی کبھی اس کے رفو کا نہیں سوچا
ویسے بھی سدا چاک گریباں ہی رہا ہے
منسُوب ہر اِک میری حکایت ہے اسی سے
افسانۂ ہستی کا وہ عُنواں ہی رہا ہے
چاہا بھی تو اس حد سے وہ آگے نہیں آیا
اِتنا ہے کہ نزدیکِ رگِ جاں ہی رہا ہے
سب کچھ کیا باقیؔ نے مگر دل نہیں توڑے
کافر تھا مگر پھر بھی مسلماں ہی رہا ہے
باقی احمد پوری
No comments:
Post a Comment