Sunday 7 April 2013

حسرت ہی رہی ہے اسے ارماں ہی رہا ہے

حسرت ہی رہی ہے اسے ارماں ہی رہا ہے
یہ دل تو ہمیشہ سے پریشاں ہی رہا ہے
رہنے نہ دیا اس کو ہواؤں نے کہیں کا
خوشبو کی طرح سب سے گریزاں ہی رہا ہے
ہم نے بھی کبھی اس کے رفو کا نہیں سوچا
ویسے بھی سدا چاک گریباں ہی رہا ہے
منسُوب ہر اِک میری حکایت ہے اسی سے
افسانۂ ہستی کا وہ عُنواں ہی رہا ہے
چاہا بھی تو اس حد سے وہ آگے نہیں آیا
اِتنا ہے کہ نزدیکِ رگِ جاں ہی رہا ہے
سب کچھ کیا باقیؔ نے مگر دل نہیں توڑے
کافر تھا مگر پھر بھی مسلماں ہی رہا ہے

باقی احمد پوری

No comments:

Post a Comment