Sunday 7 April 2013

چاند کی خاطر ضد نہیں کرتے، اے میرے اچھے انشا چاند

چاند کی خاطر ضد نہیں کرتے، اے میرے اچھے انشاؔ چاند
چاند کو اُترے دیکھا ہم نے، چاند بھی کیسا، پورا چاند
انشاؔ جی ان چاہنے والی، دیکھنے والی آنکھوں نے
ملکوں ملکوں، شہروں شہروں، کیسا کیسا دیکھا چاند
ہر اک چاند کی اپنی دھج تھی، ہر اک چاند کا اپنا رُوپ
لیکن ایسا روشن روشن، ہنستا باتیں کرتا چاند؟
درد کی ٹیس بھی اٹھتی تھی، پر اتنی بھی، بھرپور کبھی؟
آج سے پہلے کب اترا تھا، دل میں اتنا گہرا چاند 
ہم نے تو قسمت کے در سے جب پائے، اندھیرے پائے
یہ بھی چاند کا سپنا ہو گا، کیسا چاند، کہاں کا چاند؟
انشاؔ جی دنیا والوں میں بے ساتھی، بے دوست رہے
جیسے تاروں کے جھرمٹ میں تنہا چاند، اکیلا چاند
ان کا دامن اس دولت سے خالی کا خالی ہی رہا
ورنہ تھے دنیا میں کتنے چاندی چاند اور سونا چاند
جگ کے چاروں کوٹ میں گھوما، سیلانی حیران ہوا
اس بستی کے اس کوچے کے اس آنگن میں ایسا چاند؟
آنکھوں میں بھی، چتون میں بھی، چاند ہی چاند جھلکتے ہیں
چاند ہی ٹیکا، چاند ہی جھومر، چہرہ چاند اور ماتھا چاند
ایک یہ چاند نگر کا باسی، جس سے دور رہا سنجوگ
ورنہ اس دنیا میں سب نے چاہا چاند اور پایا چاند
امبر نے دھرتی پر پھینکی نور کی چھینٹ اداس اداس
آج کی شب تو آندھی شب تھی، آج کدھر سے نکلا چاند
انشاؔ جی یہ اور نگر ہے، اس بستی کی رِیت یہی ہے
سب کی اپنی اپنی آنکھیں، سب کا اپنا اپنا چاند
اپنا سینے کے مطلع پر جو بھی چمکا وہ چاند ہوا
جس نے مَن کے اندھیارے میں آن کیا اُجیارا چاند
چنچل مُسکاتی مُسکاتی گوری کا مُکھڑا مہتاب
پت جھڑ کے پیڑوں میں اٹکا، پیلا سا اِک پتہ چاند
دکھ کا دریا، سُکھ کا ساگر، اس کے دم سے دیکھ لئے
ہم کو اپنے ساتھ ہی لے کر ڈُوبا اور اُبھرا چاند
روشنیوں کی پیلی کرنیں، پُورب پچھم پھیل گئیں
تُو نے کس شے کے دھوکے میں پتھر پہ دے ٹپکا چاند
ہم نے تو دونوں کو دیکھا، دونوں ہی بےدرد کٹھور
دھرتی والا، امبر والا، پہلا چاند اور دوجا چاند
چاند کسی کا ہو نہیں سکتا، چاند کسی کا ہوتا ہے؟
چاند کی خاطر ضد نہیں کرتے، اے میرے اچھے انشاؔ چاند

ابن انشا

No comments:

Post a Comment