مِل کر جُدا ہوئے تو نہ سویا کریں گے ہم
اِک دوسرے کی یاد میں رویا کریں گے ہم
آنسو چھلک چھلک کے ستائیں گے رات بھر
موتی پلک پلک میں پِرویا کریں گے ہم
جب دُوریوں کی آگ دلوں کو جلائے گی
بن کر ہر ایک بزم کا موضوعِ گفتگو
شعروں میں تیرے غم کو سمویا کریں گے ہم
مجبوریوں کے زہر سے کر لیں گے خودکشی
یہ بُزدلی کا جرم بھی گویا کریں گے ہم
دل جل رہا ہے زرد شجر دیکھ دیکھ کر
اب چاہتوں کے بیج نہ بویا کریں گے ہم
گر دے گیا دغا ہمیں طوفان بھی قتیلؔ
ساحل پہ کشتیوں کو ڈبویا کریں گے ہم
قتیل شفائی
No comments:
Post a Comment