Sunday 14 April 2013

مل کر جدا ہوئے تو نہ سویا کریں گے ہم

مِل کر جُدا ہوئے تو نہ سویا کریں گے ہم 
اِک دوسرے کی یاد میں رویا کریں گے ہم 
آنسو چھلک چھلک کے ستائیں گے رات بھر 
موتی پلک پلک میں پِرویا کریں گے ہم
جب دُوریوں کی آگ دلوں کو جلائے گی
جسموں کو چاندنی میں بِھگویا کریں گے ہم
بن کر ہر ایک بزم کا موضوعِ گفتگو 
شعروں میں تیرے غم کو سمویا کریں گے ہم
مجبوریوں کے زہر سے کر لیں گے خودکشی 
یہ بُزدلی کا جرم بھی گویا کریں گے ہم
دل جل رہا ہے زرد شجر دیکھ دیکھ کر 
اب چاہتوں کے بیج نہ بویا کریں گے ہم
گر دے گیا دغا ہمیں طوفان بھی قتیلؔ 
ساحل پہ کشتیوں کو ڈبویا کریں گے ہم

قتیل شفائی

No comments:

Post a Comment