Friday 5 April 2013

ریا کی زد پہ ہے کب سے اسے سنبھلنے دو

ریا کی زد پہ ہے کب سے اسے سنبھلنے دو
رگوں سے شہر کی، فاسد لہو نکلنے دو
جو اُنکے جسم پہ سج بھی سکے مہک بھی سکے
رُتوں کو ایسا لبادہ کوئی بدلنے دو
کسی بھی بام پہ اب لَو کسی دِئیے کی نہیں
چراغِ چشم بچا ہے، اسے تو جلنے دو
بچے گا خیر سے شہ رگ کٹے پہ بسمل کیا
ذرا سی ڈھیل اِسے دو، اِسے اُچھلنے دو
چلن حیات کا ماجدؔ بدل بھی لو اپنا
جو سر سے ٹلنے لگی ہے بلا وہ ٹلنے دو

ماجد صدیقی

No comments:

Post a Comment