کسی گُماں پہ توقع زیادہ رکھتے ہیں
پھر آج کُوئے بُتاں کا ارادہ رکھتے ہیں
بہار آئے گی جب آئے گی، یہ شرط نہیں
کہ تشنہ کام رہیں، گرچہ بادہ رکھتے ہیں
تری نظر کا گِلہ کیا، جو ہے گِلہ دل کا
نہیں شراب سے رنگیں تو غرقِ خُوں ہیں کہ ہم
خیالِ وضعِ قمیص و لبادہ رکھتے ہیں
غمِ جہاں ہو، غمِ یار ہو کہ تیرِ ستم
جو آئے، آئے کہ ہم دل کشادہ رکھتے ہیں
جوابِ واعظِ چابک زباں میں فیضؔ ہمیں
یہی بہت ہیں جو دو حرفِ سادہ رکھتے ہیں
فیض احمد فیض
No comments:
Post a Comment