ہاں کا انداز تھا نہیں جیسا
پھر بھی احساس تھا یقیں جیسا
اِک تِرے غم کو لے کے بیٹھا ہے
کون ہو گا دلِ حزیں جیسا
ایک پل کا رفیق تھا، لیکن
وہ مُسافر ہوا مکیں جیسا
زندگی ہے نہ اس پہ سبزہ و گُل
چاند کب ہے مِری زمیں جیسا
آبرُوئے سُخن ہوں میں باقیؔ
میرا ہر لفظ ہے نِگیں جیسا
پھر بھی احساس تھا یقیں جیسا
اِک تِرے غم کو لے کے بیٹھا ہے
کون ہو گا دلِ حزیں جیسا
ایک پل کا رفیق تھا، لیکن
وہ مُسافر ہوا مکیں جیسا
زندگی ہے نہ اس پہ سبزہ و گُل
چاند کب ہے مِری زمیں جیسا
آبرُوئے سُخن ہوں میں باقیؔ
میرا ہر لفظ ہے نِگیں جیسا
باقی احمد پوری
No comments:
Post a Comment