Sunday, 7 April 2013

ہاں کا انداز تھا نہیں جیسا

ہاں کا انداز تھا نہیں جیسا
پھر بھی احساس تھا یقیں جیسا
اِک تِرے غم کو لے کے بیٹھا ہے
کون ہو گا دلِ حزیں جیسا
ایک پل کا رفیق تھا، لیکن
وہ مُسافر ہوا مکیں جیسا
زندگی ہے نہ اس پہ سبزہ و گُل
چاند کب ہے مِری زمیں جیسا
آبرُوئے سُخن ہوں میں باقیؔ
میرا ہر لفظ ہے نِگیں جیسا

باقی احمد پوری

No comments:

Post a Comment