کنارے ہیں کہ تہِ آب کم ہی جانتے ہیں
ہوا کی چال کو گرداب کم ہی جانتے ہیں
پگھل رہا ہے بدن، روح کی حرارت سے
یہ آگ وہ ہے کہ اعصاب کم ہی جانتے ہیں
دُکھے ہوئے ہیں، اسیرانِ وعدۂ فردا
سو تیری بزم کے آداب کم ہی جانتے ہیں
میں جس یقین کی بارش میں بھیگتا ہوں سلیمؔ
وہ سلسلہ میرے احباب کم ہی جانتے ہیں
ہوا کی چال کو گرداب کم ہی جانتے ہیں
پگھل رہا ہے بدن، روح کی حرارت سے
یہ آگ وہ ہے کہ اعصاب کم ہی جانتے ہیں
دُکھے ہوئے ہیں، اسیرانِ وعدۂ فردا
سو تیری بزم کے آداب کم ہی جانتے ہیں
میں جس یقین کی بارش میں بھیگتا ہوں سلیمؔ
وہ سلسلہ میرے احباب کم ہی جانتے ہیں
سلیم کوثر
No comments:
Post a Comment