Sunday 21 April 2013

سودا ہے کوئی سر میں نہ سودائی کا ڈر ہے

سودا ہے کوئی سر میں نہ سودائی کا ڈر ہے
اس بار مجھے خُود سے شناسائی کا ڈر ہے
لے آیا مِرا عشق مجھے ایسی گلی میں
آوازہ لگاتا ہوں تو رُسوائی کا ڈر ہے
دُشمن سے لڑائی کوئی آسان نہیں ہے
وہ ساتھ نہ آئے جسے پسپائی کا ڈر ہے
رنگوں کے طلسمات نے یوں گھیر لیا ہے
منظر سے نکلتا ہوں تو بینائی کا ڈر ہے
میں گھر میں سہولت سے پڑا ٹھیک ہوں گوہرؔ
جنگل کی طرح شہر میں تنہائی کا ڈر ہے

افضل گوہر

No comments:

Post a Comment