Friday 5 April 2013

کیا روپ دوستی کا کیا رنگ دشمنی کا

کیا رُوپ دوستی کا، کیا رنگ دُشمنی کا
کوئی نہیں جہاں میں کوئی نہیں کسی کا
اک تنکہ آشیانہ، اک راگنی اثاثہ
اک موسمِ بہاراں مہمان دو گھڑی کا
آخر کوئی کنارہ اس سیلِ بے کراں کا
آخر کوئی مداوا اس دردِ زندگی کا
میری سیہ شبی نے اِک عمر آرزو کی
لرزے کبھی افق پر تاگا سا روشنی کا
شاید ادھر سے گزرے پھر بھی ترا سفینہ
بیٹھا ہوا ہوں ساحل پر نَے بلب کبھی کا
اس التفات پر ہوں لاکھ التفات قرباں
مجھ سے کبھی نہ پھیرا رُخ تو نے بے رُخی کا
اب میری زندگی میں آنسو ہیں اور نہ آہیں
لیکن یہ ایک میٹھا میٹھا سا روگ جی کا
او مسکراتے تارو، او کھلکھلاتے پھولو
کوئی علاج میری آشفتہ خاطری کا

مجید امجد

No comments:

Post a Comment