Sunday, 7 April 2013

جاہ و جلال دام و درم اور کتنی دیر

جاہ و جلال، دام و درم اور کتنی دیر
ریگِ رواں پہ نقشِ قدم اور کتنی دیر
اب اور کتنی دیر یہ دہشت، یہ ڈر، یہ خوف
گرد و غبارِ عہدِ ستم اور کتنی دیر
حلقہ بگوشوں، عرض گزاروں کے درمیان
یہ تمکنت، یہ زعمِ کرم اور کتنی دیر
پل بھر میں ہو رہے گا حسابِ نبود و بود
پیچ و خم و وجود و عدم اور کتنی دیر
دامن کے سارے چاک، گریباں کے سارے چاک
ہو بھی گئے بہم تو بہم اور کتنی دیر
شام آ رہی ہے، ڈُوبتا سورج بتائے گا
تم اور کتنی دیر ہو، ہم اور کتنی دیر 

افتخار عارف

No comments:

Post a Comment