نہ گنواؤ ناوکِ نیم کش، دلِ ریزہ ریزہ گنوا دیا
جو بچے ہیں سنگ سمیٹ لو، تنِ داغ داغ لُٹا دیا
مِرے چارہ گر کو نوید ہو صفِ دُشمناں کو خبر کرو
جو وہ قرض رکھتے تھے جان پر، وہ حساب آج چُکا دیا
کرو کج جبیں پہ سرِ کفن، مِرے قاتلوں کو گُماں نہ ہو
اُدھر ایک حرف کہ کُشتنی، یہاں لاکھ عُذر تھا گُفتنی
جو کہا تو سُن کے اُڑا دیا، جو لکھا تو پڑھ کے مِٹا دیا
جو رُکے تو کوہِ گراں تھے ہم، جو چلے تو جاں سے گزر گئے
رہِ یار ہم نے قدم قدم تُجھے یادگار بنا دیا
فیض احمد فیض
No comments:
Post a Comment