Sunday, 7 April 2013

تجھ بن مری حیات میں کچھ بھی نہیں رہا

تجھ بِن مری حیات میں کچھ بھی نہیں رہا
ڈُوبا ہے چاند، رات میں کچھ بھی نہیں رہا
تیری صدا نہیں ہے تو ہم کان کیوں دَھریں
اب تو کِسی کی بات میں کچھ بھی نہیں رہا
پلکوں پہ ضوفشاں جو سِتارے تھے، گِر گئے
پھر اس کے بعد رات میں کچھ بھی نہیں رہا
آنکھیں کھلی ہیں اور نِگاہوں میں کچھ نہیں
لگتا ہے شش جہات میں کچھ بھی نہیں رہا
اب فیصلہ نصیب پہ چھوڑیں، جو ہو سو ہو
اب تو ہمارے ہاتھ میں کچھ بھی نہیں رہا
مغرور کِس قدر تھا یہ شاخِ بلند پر
جڑ کٹ گئی تو پات میں کچھ بھی نہیں رہا
اِک حرف بھی نہیں جو مِرے غم کا ساتھ دے
باقی کسی لُغات میں کچھ بھی نہیں رہا

باقی احمد پوری

No comments:

Post a Comment