Sunday 7 April 2013

سخن حق کو فضیلت نہیں ملنے والی

سخنِ حق کو فضیلت نہیں ملنے والی
صبر پر دادِ شجاعت نہیں ملنے والی
وقت معلوم کی دہشت سے لرزتا ہوا دل
ڈُوبا جاتا ہے کہ مہلت نہیں ملنے والی
زندگی نذر گزاری تو ملی چادرِ خاک
اس سے کم پر تو یہ نعمت نہیں ملنے والی
راس آنے لگی دُنیا تو کہا دل نے کہ جا
اب تجھے درد کی دولت نہیں ملنے والی
ہوسِ لقمۂ تر کھا گئی لہجے کا جلال
اب کسی حرف کو حُرمت نہیں ملنے والی
گھر سے نکلے ہوئے بیٹوں کا مقدر معلوم
ماں کے قدموں میں بھی جنت نہیں ملنے والی
زندگی بھر کی کمائی یہی مصرعے دو چار
اس کمائی پہ تو عزت نہیں ملنے والی

افتخار عارف

No comments:

Post a Comment