Sunday 21 April 2013

جاگے ہیں بسرے درد ہوا پھر آئی ہے

جاگے ہیں بِسرے درد، ہَوا پھر آئی ہے
جاناں کی گلی سے سرد ہَوا پھر آئی ہے
جب گرد و بلا میں گلیوں سے گُلزاروں تک
سب منظر ہو گئے زرد، ہَوا پھر آئی ہے
کیا مسجد، کیا بازار، لہو کا موسم ہے
کس قریہ سے بے درد، ہَوا پھر آئی ہے
اک عمر تلک مَیلے سُورج کا حبس رہا
جب سُلگ اٹُھا ہر فرد، ہَوا پھر آئی ہے
کل شجر شجر دھرتی کی جن سے رکھشا تھی
اب کہاں گئے وہ مرد، ہَوا پھر آئی ہے
میں پال رہا تھا کاغذ کے کچھ زخم سعید
سہلانے میرا درد، ہَوا پھر آئی ہے

سعید خان

No comments:

Post a Comment