Sunday 14 April 2013

وقت مقتل سے مری لاش اٹھا لایا تھا

وقت مقتل سے مِری لاش اٹھا لایا تھا
لوگو! میں اپنی گواہی میں خدا لایا تھا
اب یہ موسم مِری پہچان طلب کرتے ہیں
میں جب آیا تھا یہاں تازہ ہوا لایا تھا
لے اڑی بادِ کم اثر، سرِ دشت کہیں
میں تو صحرا سے تِرے گھر کا پتا لایا تھا
میرے ہاتھوں میں بھی زیتون کی شاخیں تھیں کبھی
میں بھی ہونٹوں پہ کبھی حرفِ دعا لایا تھا
جنگ کے آخری لمحوں میں عجب بات ہوئی
شاہ لڑتے ہوئے پیادے کو بچا لایا تھا
لذّتِ دربدری بھول چکا ہوں اب تو
خالی ہاتھوں میں کبھی عرض و سما لایا تھا
وہ بھی دریوزہ گرِ شہرِ تمنّا تھا سلیمؔ
میں بھی اک کاسہ بنام اٹھا لایا تھا 

سلیم کوثر 

No comments:

Post a Comment