Sunday 14 April 2013

مجھے خبر تھی مرے بعد وہ بکھر جاتا

مجھے خبر تھی مِرے بعد وہ بکھر جاتا
سو اس کو کس کے بھروسے پہ چھوڑ کر جاتا
وہ خوشبوؤں میں گھرا تھا کہ مثل سایۂ ابر
میان صحن چمن میں ادھر اّدھر جاتا
وہ کوئی نشہ نہیں تھا کہ ٹوٹتا مجھ میں
وہ سانحہ بھی نہیں تھا کہ جو گزر جاتا
وہ خواب جیسا کوئی تھا نگار خانۂ حسن
میں جتنا دیکھتا وہ اتناہی سنور جاتا
بس ایک خیال کی لو میں دھلا ہوا وہ بدن
میں جتنا سوچتا وہ اتنا ہی نکھر جاتا
رکا ہوا تھا میرا سانس میرے سینے میں
اسے گلے نہ لگاتا تو گھٹ کے مر جاتا
اک ایسے عالمِ وارفتگی سے گزرا ہوں
جہاں سمیٹتا خود کو تو میں بکھر جاتا
شکستہ ہو گيا پندار آئینہ ورنہ
یقین کر میں تیرے عشق سے مکر جاتا
نہ جانے کتنے محاذوں پہ جنگ تھی میری
بس ایک وعدہ نبھانے میں میں اپنے گھر جاتا

سلیم کوثر

No comments:

Post a Comment