Saturday, 6 April 2013

پھر وہی رنج ندامت ہے پریشانی ہے

پھر وہی رنجِ نِدامت ہے، پریشانی ہے 
پھر وہی شعبدہ بازوں کی فراوانی ہے 
پھر وہی بدلے ہوئے چہرے مرے سامنے ہیں
پھر سرِ آئینہ پھیلی ہوئی حیرانی ہے
جو بھی حاکم ہوا میرا ہوا غیروں کاغلام 
یہی جمہور ہے اپنا، یہی سلطانی ہے 
امتحاں اس کو کہیں ہم، کہ مقدر اپنا 
جبر کی رات ہے اور اپنی گراں جانی ہے 
آنے والوں کے لئے چھوڑ رہے ہیں کیا کچھ 
بھوک ہے، ننگ ہے اور بے سر و سامانی ہے 
ناامیدی بھی نہیں مجھ کو کہ ایماں ہے مِرا 
اک نہ اک روز قیامت کی گھڑی آنی ہے 

سعد اللہ شاہ

No comments:

Post a Comment