Sunday 7 April 2013

جسے حیات سے نفرت بہت زیادہ تھی

جسے حیات سے نفرت بہت زیادہ تھی
ہمیں اسی کی ضرورت بہت زیادہ تھی
اب ایک لمحۂ مفقُود کو ترستے ہیں
وہ دن بھی تھے، ہمیں فُرصت بہت زیادہ تھی
ہمارے گھر کی تباہی کا یہ سبب ٹھہرا
ہمارے گھر میں سیاست بہت زیادہ تھی
ہر ایک جرم کے پیچھے تھا جس کا ہاتھ یہاں
اسی کی شہر میں عزت بہت زیادہ تھی
اِسی لیے تو وہ دستِ سِتم دراز رہا
کہ ہم میں ضبط کی عادت بہت زیادہ تھی
اسی نے شہر کا سارا جمال چھین لیا
جو سَر بلند عمارت بہت زیادہ تھی
حقیقتوں پہ تو ٹھہری نہیں نظر اپنی
خیال و خواب کی صُورت بہت زیادہ تھی
نہ اس کی آنکھ بھر آئی، نہ میرا دل رویا
دمِ فراق یہ حیرت بہت زیادہ تھی
تھکن سے ٹوٹ گِرا ہوں تو اب یہ سوچتا ہوں
کہ بے خیال مسافت بہت زیادہ تھی
تمہارا قُرب جو ملتا تو جانے کیا کرتے
ہمیں تو دُور کی نِسبت بہت زیادہ تھی
اب اس کا نام بھی لیتے ہیں سوچ کر باقیؔ
کِسی سے ہم کو محبت بہت زیادہ تھی

باقی احمد پوری

No comments:

Post a Comment