Tuesday 21 October 2014

دیتی نہیں اماں جو زمیں آسماں تو ہے

دیتی نہیں اماں جو زمیں، آسماں تو ہے
کہنے کو اپنے دل سے کوئی داستاں تو ہے
یوں تو ہے رنگ زرد، مگر ہونٹ لال ہیں
صحرا کی وسعتوں میں کہیں گلستاں تو ہے
اک چیل اک ممٹی پہ بیٹھی ہے دھوپ میں
گلیاں اجڑ گئی ہیں، مگر پاسباں تو ہے
آواز دے کے دیکھ لو شاید وہ مل ہی جائے
ورنہ یہ عمر بھر کا سفر رائیگاں تو ہے
مجھ سے بہت قریب ہے تُو پھر بھی اے منیرؔ
پردہ سا کوئی میرے ترے درمیاں تو ہے

منیر نیازی

No comments:

Post a Comment