Saturday 18 October 2014

ہم بھی اِک رنگ میں تقدیر سے ٹکراتے ہیں

ہم بھی اِک رنگ میں تقدیر سے ٹکراتے ہیں
پاؤں پھیلائے تو ہم ہاتھ کو پھیلاتے ہیں
ہم تو جاتے ہیں چمن میں کہ صبا آتی ہے
پھول کیوں شاخ پہ کھلنے کے لیے آتے ہیں
بے سر و پا جو کھڑی ہے یہ عمارت دل کی
اس لیے اس میں وہ آتے ہوئے گھبراتے ہیں
میں نے جو تم سے کہی تھی کبھی سرگوشی میں
آج بھی لوگ اُسی بات کو دہراتے ہیں
پیکرِ شام! تری آنکھ کے ڈوروں کی قسم
تم کہو ہم کو، تو دنیا سے چلے جاتے ہیں
پوچھتے رہتے ہیں کیا کرتے ہو، کیا کرتے ہو
کچھ نہیں کرتے، محبت کی جزا پاتے ہیں
شاعرانہ سی روش ہے یہ محض شوقِ جنوں
جن کلیجوں میں تڑپ ہوتی ہے پھٹ جاتے ہیں
پاک ہو جاتا ہے دنیا کے خرافات سے وہ
 مرنے والے کو بھلا کس لیے نہلاتے ہیں؟

ادریس آزاد

No comments:

Post a Comment