Saturday 18 October 2014

تو نے دریائے محبت کو اچھالا ہوا ہے

تُو نے دریائے محبت کو اچھالا ہوا ہے
اور اسے میں نے کناروں سے سنبھالا ہوا ہے
تم نے جو کام کیا تھا مِری تخلیق کے روز
ہم نے بھی ہاتھ اسی کام میں ڈالا ہوا ہے
تُو جو آیا ہے تو میں نے بھی جلایا ہے چراغ
تیرے آنے سے مِرے گھر میں اُجالا ہوا ہے
میری امید سے خورشید سنہرا ہوا تھا
 رات کا رنگ مِرے درد سے کالا ہوا ہے
اس نے ہر بدلہ اتارا ہے، اتارا جب سے
ہم نے انصاف فقط حشر پہ ٹالا ہوا ہے
لوٹتا پوٹتا رہتا ہے مِرے قدموں میں
یہ سگِ غم مِری دہلیز کا پالا ہوا ہے

ادریس آزاد

No comments:

Post a Comment