Thursday, 16 October 2014

نئے سفر کی مسافت سے خوف آتا ہے

نئے سفر کی مسافت سے خوف آتا ہے
مرے قبیلے کو ہجرت سے خوف آتا ہے
تمام شہر کو تاریکیوں سے شکوہ ہے
مگر چراغ کی بیعت سے خوف آتا ہے
سفر بھی طے نہ ہوا، بادبان بھی نہ رہا
ہوا کی ایسی حمایت سے خوف آتا ہے
مجھے زمانے کی شورش کا کوئی خوف نہیں
خود اپنے گھر میں بغاوت سے خوف آتا ہے
خدا بچائے کسی کی نظر نہ لگ جائے
ذرا سی عمر میں شہرت سے خوف آتا ہے
جو سن چکے ہیں وہ مٹی میں ہو گئے تبدیل
زمین تیری حکایت سے خوف آتا ہے
برا نہ مانو تو اک بات کہنا چاہتا ہوں
مجھے تمہاری محبت سے خوف آتا ہے
نبیلؔ کون بتائے گزرتے لمحوں کو
بدن کو روح کی وسعت سے خوف آتا ہے

عزیز نبیل

No comments:

Post a Comment