نئے سفر کی مسافت سے خوف آتا ہے
مرے قبیلے کو ہجرت سے خوف آتا ہے
تمام شہر کو تاریکیوں سے شکوہ ہے
مگر چراغ کی بیعت سے خوف آتا ہے
سفر بھی طے نہ ہوا، بادبان بھی نہ رہا
مجھے زمانے کی شورش کا کوئی خوف نہیں
خود اپنے گھر میں بغاوت سے خوف آتا ہے
خدا بچائے کسی کی نظر نہ لگ جائے
ذرا سی عمر میں شہرت سے خوف آتا ہے
جو سن چکے ہیں وہ مٹی میں ہو گئے تبدیل
زمین تیری حکایت سے خوف آتا ہے
برا نہ مانو تو اک بات کہنا چاہتا ہوں
مجھے تمہاری محبت سے خوف آتا ہے
نبیلؔ کون بتائے گزرتے لمحوں کو
بدن کو روح کی وسعت سے خوف آتا ہے
عزیز نبیل
No comments:
Post a Comment