Sunday 26 October 2014

خرد کے ڈھیر سے کوئی جو نادانی نکل آئے

خرد  کے ڈھیر سے کوئی جو  نادانی نکل آئے
انہی دشواریوں کے بیچ آسانی نکل آئے
وہ جس نے اپنی ساری عمر سجدے میں گزاری ہو
کہاں جائے اگر اس کا خدا فانی نکل آئے
مجھے اپنے بچاؤ کی لڑائی خود ہی لڑنی ہے
گواہوں میں نجانے کون سلطانی نکل آئے
یہی صورت رہی حالات کی تو عین ممکن ہے
کسی ایمان کو کھولوں تو حیرانی نکل آئے
عصائے حرف کی ضربیں مسلسل آزمانی ہیں
کسی پتھر سے ممکن ہے کبھی پانی نکل آئے

حمیدہ شاہین

No comments:

Post a Comment