Sunday 26 October 2014

جانے کیا موج ہے وہ، جس کی روانی تو ہے

جانے کیا موج ہے وہ، جس کی روانی تُو ہے
تُو مِری پیاس رہا، اب مِرا پانی تُو ہے
میرے ناخن کسی دیوار کے اندر ٹوٹے
یہ کہانی کا خلاصہ ہے، کہانی تُو ہے
وحشتِ چشم! تجھے کیسے رہائی دے دوں
کسی روکے گئے آنسو کی نشانی تُو ہے
آ، کہ دونوں کسی مضمون میں ڈھالے جائیں
تُو نے لکھا تھا مِرا مصرعِ ثانی تُو ہے
یہی احساس بچایا ہے بڑھاپے کے لیے
مجھ پہ بیتی ہوئی صد رنگ جوانی تُو ہے
ایک ہی لفظ میں لے آؤں ازل اور ابد
تُو اگر سامنے آئے کہ معانی تُو ہے

حمیدہ شاہین

No comments:

Post a Comment