Sunday 26 October 2014

نگر میں اس کے بعد کوئی ہم زباں نہیں رہا

نگر میں اس کے بعد کوئی ہم زباں نہیں رہا
وہ کیا گیا کہ لگ رہا ہے سائبان نہیں رہا
زمین تو ازل سے ہی سرک رہی ہے پاؤں سے
اب ایسا لگ رہا ہے سر پہ آسماں نہیں رہا
وہ تھا تو خوش گمانیوں کی موج میں پڑا تھا میں
چلا گیا ہے وہ تو میں بھی خوش گماں نہیں رہا
ترس رہا ہوں بوند بوند کو ہے تشنگی بہت
محبتوں کا ایک بحر بے کراں نہیں رہا
سب ایک ایک کر کے راستے میں رہ گئے کہیں
اکیلا رہ گیا ہوں اب وہ کارواں نہیں رہا

اوصاف شیخ

No comments:

Post a Comment