نگر میں اس کے بعد کوئی ہم زباں نہیں رہا
وہ کیا گیا کہ لگ رہا ہے سائبان نہیں رہا
زمین تو ازل سے ہی سرک رہی ہے پاؤں سے
اب ایسا لگ رہا ہے سر پہ آسماں نہیں رہا
وہ تھا تو خوش گمانیوں کی موج میں پڑا تھا میں
چلا گیا ہے وہ تو میں بھی خوش گماں نہیں رہا
ترس رہا ہوں بوند بوند کو ہے تشنگی بہت
محبتوں کا ایک بحر بے کراں نہیں رہا
سب ایک ایک کر کے راستے میں رہ گئے کہیں
اکیلا رہ گیا ہوں اب وہ کارواں نہیں رہا
اوصاف شیخ
وہ کیا گیا کہ لگ رہا ہے سائبان نہیں رہا
زمین تو ازل سے ہی سرک رہی ہے پاؤں سے
اب ایسا لگ رہا ہے سر پہ آسماں نہیں رہا
وہ تھا تو خوش گمانیوں کی موج میں پڑا تھا میں
چلا گیا ہے وہ تو میں بھی خوش گماں نہیں رہا
ترس رہا ہوں بوند بوند کو ہے تشنگی بہت
محبتوں کا ایک بحر بے کراں نہیں رہا
سب ایک ایک کر کے راستے میں رہ گئے کہیں
اکیلا رہ گیا ہوں اب وہ کارواں نہیں رہا
اوصاف شیخ
No comments:
Post a Comment