Sunday 26 October 2014

عشق میں ہار کے اب سارے ہنر بیٹھے ہیں

عشق میں ہار کے اب سارے ہنر بیٹھے ہیں
تجربہ ہم بھرے بازار میں کر بیٹھے ہیں
شائد اس بار تو رک جائے اٹھا لے ہم کو
ہم ترے راستے میں بار دگر بیٹھے ہیں
ڈھونڈنے نکلے تجھے خود کو گنوا کر آئے
تھام کے مٹھی میں اب گرد سفر بیٹھے ہیں
میں رہا ایک ستارے کے لیے سرگرداں
کہکشائیں ہیں یہاں شمس و قمر بیٹھے ہیں
ہم کہ خبروں کے تعاقب میں رہے سرگرداں
اور اب یہ ہے کہ خود بن کے خبر بیٹھے ہیں
جس سے طوفان کی مانند وہ گزرا اوصافؔ
مل کے ہم آج بھی وہ راہگزر بیٹھے ہیں

اوصاف شیخ

No comments:

Post a Comment