Sunday 26 October 2014

یہ دل جو مضطرب رہتا بہت ہے

یہ دل جو مضطرب رہتا بہت ہے
کوئی اس دشت میں تڑپا بہت ہے
کوئی اس رات کو ڈھلنے سو روکے
مِرا قصہ ابھی رہتا بہت ہے
بہت ہی تنگ ہوں آنکھوں کے ہاتھوں
یہ دریا آج کل بہتا بہت ہے
بوقتِ شام اکٹھے ڈوبتے ہیں
دل و سورج میں یارانہ بہت ہے
بہت ہی راس ہے صحرا لہو کو
کہ صحرا میں لہو اگتا بہت ہے
مبارک اس کو اس کے تر نوالے
مجھے سوکھا ہوا ٹکڑا بہت ہے
بیاض اس واسطے خالی ہے میری
مجھے افلاس نے بیچا بہت ہے
بتوں کا نام بھی پڑھتا ہے بیدلؔ
خدا کا نام بھی لیتا بہت ہے

بیدل حیدری

No comments:

Post a Comment