Sunday 26 October 2014

دل کیا ٹوٹا سارا بچہ ٹوٹ گیا

دل کیا ٹوٹا سارا بچہ ٹوٹ گیا
کھیل رہا تھا اور کھلونا ٹوٹ گیا
آنسو تو پہلے بھی ٹوٹا کرتے تھے
لیکن آج تو آنکھ کا دریا ٹوٹ گیا
پھول چڑھانے والے آنا چھوڑ گئے
رفتہ رفتہ قبر کا کتبہ ٹوٹ گیا
کون نہیں اکھڑے گا ان بھونچالوں میں
جب مجھ جیسا کوہ ہمالہ ٹوٹ گیا
آج بھی اس کی حاکمیت محسوس ہوئی
آج بھی بیدلؔ میرا ارادہ ٹوٹ گیا

بیدل حیدری

No comments:

Post a Comment