Tuesday 21 October 2014

ایسا بھی نہیں ہے کہ سدا رہتا ہے مجھ میں

ایسا بھی نہیں ہے کہ سدا رہتا ہے مجھ میں
اک حشر بہرحال بپا رہتا ہے مجھ میں
ان ٹوٹے ہوئے خوابوں کی گٹھڑی کے علاوہ
موجود ہے جو کچھ بھی ترا رہتا ہے مجھ میں
آتا ہے دمِ فجر تھکا ہارا مسافر
اور صبح سے تا شام پڑا رہتا ہے مجھ میں
خوش فہم ہَوا کو یہ خبر دو کہ پلٹ آئے
بجھتا ہی سہی، ایک دِیا رہتا ہے مجھ میں
تعمیرِ محبت ہو کہ مسماریٔ دل ہو
کوئی نہ کوئی کام لگا رہتا ہے مجھ میں
یہ بند اگر ٹوٹ بھی جائے تو عجب کیا
دریا جو ہمہ وقت بھرا رہتا ہے مجھ میں
کیا جانیے کس ڈر سے نکلتا نہیں دن بھر
غم ہے کہ کوئی چور چھپا رہتا ہے مجھ میں
برسا تھا مِرے دل پہ کبھی ابرِ مسلسل
اک باغ شب و روز ہرا رہتا ہے مجھ میں
تم لوگ سمجھتے ہو کہ میں خالی مکاں ہوں
معلوم بھی ہے، میرا خدا رہتا ہے مجھ میں
رُک رُک کے سرِ دشتِ گلو چلتا ہے شارقؔ
 اب سانس نہیں آبلہ پا رہتا ہے مجھ میں

سعید شارق

No comments:

Post a Comment