Sunday 26 October 2014

ہم خدا کی رضا کے ساتھ رہے

ہم خدا کی رضا کے ساتھ رہے
گرد تھے سو، ہوا کے ساتھ رہے
راستوں کو ہوا نے گھیر لیا
 بھاگتوں کو خدا نے گھیر لیا
 خال ٹھہرے، گیاه پوش رہے
 عمر بھر ہم سیاہ پوش رہے
کج ادا، کج سروں میں رہتے ہیں
ہم تیری ٹھوکروں میں رہتے ہیں
 گھر میں کیا تھا، جو رهن رکھ آتے
 دل چھڑاتے، تو ذہن رکھ آتے
تھام کر آستیں جدائی کی
 عشق نے حسن کی گدائی کی
 تیرا حلقہ بگوش کیا کرتا
 ایک خانہ بدوش کیا کرتا
 میری فردِ گناه کے مالک
اے سپید و سیاه کے مالک
تارِ گھر، بارِ جاں تھا، کاٹ دیا
 پیار اندھا کنواں تھا، پاٹ دیا
موج در موج پیرتے تھے ہم
 کبھی آنکھوں میں تیرے تھے ہم
 دل فقط دل کے مول بکتے تھے
 پھول خوشبو کی تول بکتے تھے
 اب وه سستا زمانہ خواب ہوا
 آب، مدت ہوئی، سراب ہوا
لفظ ہندسے ہیں، لوگ ہندسے ہیں
 اب تو ہر دل کا روگ ہندسے ہیں
 معتبر ہندسے مانے جاتے ہیں
 لوگ ہندسوں سے جانے جاتے ہیں
سطر در سطر حرف کتنے ہیں
 شہر میں اہلِ ظرف کتنے ہیں
 کتنے بازو ہیں، زور کتنا ہے
 شہر کتنا ہے، شور کتنا ہے
 اے خدا! خود پرستیاں دیکھیں
 اپنے بندوں کی مستیاں دیکھیں
 رنگ، فرہنگِ بے زبانی ہیں
 مکر و فن، آج ہم معانی ہیں
 جب پسینہ جبیں سے پھوٹے گا
 دانہ بنجر زمیں سے پھوٹے گا
 دیکھنا خاک ہو چلیں جھیلیں
 کتنی بے چین ہیں ابابیلیں
 سرزمینِ زیاں ربا کے لئے
 ایک مٹھی ہوا، خدا کے لئے 

خالد احمد 

No comments:

Post a Comment