Wednesday 15 October 2014

مجھ میں غم یک رنگی زہراب سے آیا ہے

مجھ میں غم یک رنگی زہراب سے آیا ہے
 صحرا مِرے باغوں میں سیلاب سے آیا ہے
 تم دل کا محرک تھے کیا یاد دلاؤں میں
 واپس کبھی کنکر بھی تالاب سے آیا ہے
 پا کر بھی تجھے دل کو دھڑکا ہے جدائی کا
 تو خواب میں آیا ہے یا خواب سے آیا ہے
 پتھر نے سکھائی ہے تہذیب مِرے سر کو
 سازینہ قرینے میں مضراب سے آیا ہے
 مٹی سے بچھڑ کر بھی مٹی کے لیے جلنا
 یہ وصف چراغوں میں مہتاب سے آیا ہے
افتاد ہی بالآخر ایجاد میں ڈھلتی ہے
 کشتی کا ہنر ہم تک گرداب سے آیا ہے
 سوچا ہے اسے شاہدؔ دشمن کے لیے رکھ دوں
 میرے لیے جو تحفہ احباب سے آیا ہے

 شاہد ذکی

No comments:

Post a Comment