Thursday, 16 October 2014

خاک ہونے سے مجھے اس نے بچایا بھی نہیں

خاک ہونے سے مجھے اس نے بچایا بھی نہیں
ہو چکا خاک تو پھونکوں سے اڑایا بھی نہیں
لٹنے والا میں عجب ہوں کہ بڑی عجلت میں
لٹ گیا اور کوئی شور مچایا بھی نہیں
ایک تصویر جو لفظوں سے بنا رکھی ہے
ایک چہرہ جو خیالوں سے مٹایا بھی نہیں
حالِ دل، راز کی صورت مرے سینے میں رہا
اس نے پوچھا بھی نہیں، میں نے بتایا بھی نہیں
در و دیوار نہ پڑھ لیں مری آنکھوں میں تجھے
میں نے اس ڈر سے چراغوں کو جلایا بھی نہیں

 عزیز نبیل

No comments:

Post a Comment