Sunday 26 October 2014

وہی غبار کڑی دھوپ زخم پا اور ہم

وہی غبار، کڑی دھوپ، زخمِ پا اور ہم
نظر میں خواب سی منزل کا راستا اور ہم
وہی بسی ہوئی آنکھوں میں حسرتیں تشنہ
وہی لبوں پہ سسکتی ہوئی دعا اور ہم
جسے پکارتے عمریں گزر گئیں اپنی
ہے انتظار ابھی اس کے جواب کا اور ہم
بغیر سمت مقرر کئے سفر میں ہیں
گئے دنوں کی طرح آج بھی ہوا اور ہم
امانتیں ہیں کسی گمشدہ قبیلے کی
اکیلا رات کو جلتا ہوا دِیا اور ہم
اب ایک سے ہیں تِرے شہرِ رنگ و خوشبو میں
شجر سے ٹوٹ کے پتا گِرا ہوا اور ہم
افق سے پھوٹتی گلنارِ پو بکھرتی رات
خیال میں تِرا چہرہ گلاب سا اور ہم
یہ کس کا عکس ابھرتا ہے درمیاں رزمیؔ
جو روبرو کبھی ہوتے ہیں آئینہ اور ہم

خادم رزمی

No comments:

Post a Comment