Saturday 25 October 2014

اشک آنکھوں میں چھپاتے ہوئے تھک جاتا ہوں

اشک آنکھوں میں چھپاتے ہوئے تھک جاتا ہوں 
بوجھ پانی کا اٹھاتے ہوئے تھک جاتا ہوں
پاؤں رکھتے ہیں جو مجھ پر انہیں احساس نہیں
میں نشانات مٹاتے ہوئے تھک جاتا ہوں
برف ایسی کہ پگھلتی نہیں پانی بن کر
پیاس ایسی کہ بجھاتے ہوئے تھک جاتا ہوں
اچھی لگتی نہیں اس درجہ شناسائی بھی
ہاتھ ہاتھوں سے ملاتے ہوئے تھک جاتا ہوں
غمگساری بھی عجب کارِ محبت ہے کہ میں
رونےوالوں کو ہنساتے ہوئے تھک جاتا ہوں
اتنی قبریں نہ بناؤ میرے اندر محسنؔ
میں چراغوں کو جلاتے ہوئے تھک جاتا ہوں

محسن نقوی

No comments:

Post a Comment