Saturday 25 October 2014

ایک پل میں زندگی بھر کی اداسی دے گیا

ایک پل میں زندگی بھر کی اداسی دے گیا
وہ جدا ہوتے ہوئے کچھ پھول باسی دے گیا
نوچ کر شاخوں کے تن سے خشک پتوں کا لباس
زرد موسم بانجھ رُت کو بے لباسی دے گیا
صبح کے تارے! میری پہلی دعا تیرے لئے
تُو دلِ بے صبر کو تسکین ذرا سی دے گیا
لوگ ملبوں میں دبے سائے بھی دفنانے لگے
زلزلہ اہلِ زمیں کو بدحواسی دے گیا
تند جھونکے کی رگوں میں گھول کر اپنا دھواں
اِک دِیا اندھی ہوا کو خودشناشی دے گیا
لے گیا محسنؔ وہ مجھ سے ابر بُنتا آسمان
اس کے بدلے میں، زمیں صدیوں کی پیاسی دے گیا

محسن نقوی

No comments:

Post a Comment