ایک پل میں زندگی بھر کی اداسی دے گیا
وہ جدا ہوتے ہوئے کچھ پھول باسی دے گیا
نوچ کر شاخوں کے تن سے خشک پتوں کا لباس
زرد موسم بانجھ رُت کو بے لباسی دے گیا
صبح کے تارے! میری پہلی دعا تیرے لئے
لوگ ملبوں میں دبے سائے بھی دفنانے لگے
زلزلہ اہلِ زمیں کو بدحواسی دے گیا
تند جھونکے کی رگوں میں گھول کر اپنا دھواں
اِک دِیا اندھی ہوا کو خودشناشی دے گیا
لے گیا محسنؔ وہ مجھ سے ابر بُنتا آسمان
اس کے بدلے میں، زمیں صدیوں کی پیاسی دے گیا
محسن نقوی
No comments:
Post a Comment