اب کے بارش میں تو یہ کار زیاں ہونا ہی تھا
اپنی کچی بستیوں کو بے نشاں ہونا ہی تھا
کس کے بس میں تھا ہوا کی وحشتوں کو روکنا
برگ گل کو خاک، شعلے کو دھواں ہونا ہی تھا
جب کوئی سمتِ سفر طے تھی نہ حدِ رہگزر
مجھ کو رکنا تھا اسے جانا تھا اگلے موڑ تک
فیصلہ یہ اس کے میرے درمیاں ہونا ہی تھا
چاند کو چلنا تھا بہتی سیپیوں کے ساتھ ساتھ
معجزہ یہ بھی تہِ آبِ رواں ہونا ہی تھا
میں نئے چہروں پہ کہتا تھا نئی غزلیں سدا
میری اس عادت سے اس کو بدگماں ہونا ہی تھا
شہر سے باہر کی ویرانی بسانا تھی مجھے
اپنی تنہائی پہ کچھ تو مہرباں ہونا ہی تھا
اپنی آنکھیں دفن کرنا تھیں غبارِ خاک میں
یہ ستم بھی ہم پہ زیرِ آسماں ہونا ہی تھا
بے صدا بستی کی رسمیں تھیں یہی محسنؔ مِرے
میں زباں رکھتا تھا مجھ کو بے زباں ہونا ہی تھا
محسن نقوی
No comments:
Post a Comment