Saturday, 25 October 2014

اب کے بارش میں تو یہ کار زیاں ہونا ہی تھا

اب کے بارش میں تو یہ کار زیاں ہونا ہی تھا
اپنی کچی بستیوں کو بے نشاں ہونا ہی تھا
کس کے بس میں تھا ہوا کی وحشتوں کو روکنا
برگ گل کو خاک، شعلے کو دھواں ہونا ہی تھا
جب کوئی سمتِ سفر طے تھی نہ حدِ رہگزر
اے مِرے رہرو! سفر تو رائیگاں ہونا ہی تھا
مجھ کو رکنا تھا اسے جانا تھا اگلے موڑ تک
فیصلہ یہ اس کے میرے درمیاں ہونا ہی تھا
چاند کو چلنا تھا بہتی سیپیوں کے ساتھ ساتھ
معجزہ یہ بھی تہِ آبِ رواں ہونا ہی تھا
میں نئے چہروں پہ کہتا تھا نئی غزلیں سدا
میری اس عادت سے اس کو بدگماں ہونا ہی تھا
شہر سے باہر کی ویرانی بسانا تھی مجھے
اپنی تنہائی پہ کچھ تو مہرباں ہونا ہی تھا
اپنی آنکھیں دفن کرنا تھیں غبارِ خاک میں
یہ ستم بھی ہم پہ زیرِ آسماں ہونا ہی تھا
بے صدا بستی کی رسمیں تھیں یہی محسنؔ مِرے
میں زباں رکھتا تھا مجھ کو بے زباں ہونا ہی تھا

محسن نقوی

No comments:

Post a Comment