Wednesday 22 October 2014

زمین پاؤں تلے سر پہ آسمان لئے

زمین پاؤں تلے سر پہ آسمان لئے
ندائے غیب کو جاتا ہوں بہرے کان لئے
میں بڑھ رہا ہوں کسی رعدِ ابر کی جانب
بدن کو ترک کئے اور اپنی جان لئے
یہ میرا ظرف کہ میں نے اثاثۂ شب سے
بس ایک خواب لیا اور چند شمع دان لئے
میں سطحِ آب پہ اپنے قدم جما لوں گا
بدن کی آگ لئے اور کسی کا دھیان لئے
میں چل پڑوں گا ستاروں کی روشنی لے کر
کسی وجود کے مرکز کو درمیان لئے
پرندے میرا بدن دیکھتے تھے حیرت سے
میں اڑ رہا تھا خلا میں عجیب شان لئے
قلیل وقت میں یوں میں نے ارتکاز کیا
بس اک جہان کے اندر کئی جہان لئے
ابھی تو مجھ سے میری سانس بھی تھی نامانوس
کہ دستِ مرگ نے نیزے بدن پہ تان لئے
زمیں کھڑی ہے کئی لاکھ نوری سالوں سے
کسی حیاتِ مسلسل کی داستان لئے

رفیق سندیلوی

No comments:

Post a Comment