Wednesday 22 October 2014

سیاہ رات ہو، ہر شے کو نیند آئی ہو

سیاہ رات ہو، ہر شے کو نیند آئی ہو
مِرے وجود کی تقریبِ رونمائی ہو
رکھا گیا ہو ہر اک خواب کو قرینے سے
زمینِ حجلۂ ادراک کی صفائی ہو
اس اعتکافِ تمنا کی سرد رات کے بعد
میں جل مروں جو کبھی آگ تک جلائی ہو
کبھی کبھی تو یہ لگتا ہے، ساعتِ موجود
مجھے قدیم زمانے میں کھینچ لائی ہو
نکل پڑوں میں کوئی مشعلِ فسوں لے کر
قیام گاہِ ابد تک مری رسائی ہو
میں اُسکے وار کو سانسوں کی ڈھال پر روکوں
سوارِ مرگ سے گھمسان کی لڑائی ہو

رفیق سندیلوی

No comments:

Post a Comment