Friday, 29 November 2019

فقط جدائی کا ایک دھڑکا دھڑک رہا ہے

مذاق ہو گا 
مگر اسے علم بھی نہیں ہے کہ 
چار گھنٹوں سے
میرے سینے میں اب جو ہے ناں
وہ دل نہیں ہے
فقط جدائی کا ایک دھڑکا دھڑک رہا ہے

مجھے اپنا نہیں اس شخص کا دکھ ہے

مجھے اپنا نہیں
اس شخص کا دکھ ہے
بچھڑ کے مجھ سے 
جس کی نظمیں اور غزلیں
ادھوری رہ گئی ہوں گی

کومل جوئیہ

Thursday, 28 November 2019

بھنگڑے پہ اور دھمال پہ بھی ٹیکس لگ گیا

بھنگڑے پہ اور دھمال پہ بھی ٹیکس لگ گیا
واعظ کے قیل و قال پہ بھی ٹیکس لگ گیا
شادی کے بارے میں کبھی نہ سوچنا چھڑو
سنتے ہیں اس خیال پہ بھی ٹیکس لگ گیا
ہے جس حسین کے گال پہ ڈمپل کوئی کہ تِل
ہر اس حسین کے گال پہ بھی ٹیکس لگ گیا

حقیقی سوچ کی گہرائی مار ڈالے گا

حقیقی سوچ کی گہرائی مار ڈالے گا
بڑھے گا جھوٹ تو سچائی مار ڈالے گا
میں دوستوں کے تو چُنگل سے بچ گیا ہوں مگر
میں جانتا ہوں مجھے بھائی مار ڈالے گا
میں سارے شہر کی تنہائیوں کا وارث ہوں
جو مجھ کو مارے گا، تنہائی مار ڈالے گا

جھوٹی افواہیں اڑانے میں لگے رہتے ہیں

جھوٹی افواہیں اڑانے میں لگے رہتے ہیں
لوگ بس باتیں بنانے میں لگے رہتے ہیں
حاکمِ شہر تجھے قتل کریں گے یہی لوگ
جو تِرے جوتے اٹھانے میں لگے رہتے ہیں
پہلے تو لوٹتے رہتے تھے لٹیرے اور اب
ایک دوجے کو بچانے میں لگے رہتے ہیں

کوئی خدا تو کوئی ناخدا بنا ہوا ہے

کوئی خدا تو کوئی "ناخدا" بنا ہوا ہے
فقط غریب ہے جو خاکِ پا بنا ہوا ہے
عجب نہیں کہ جبینوں کو داغدار کیے
جسے بھی دیکھو وہی پارسا بنا ہوا ہے
نصیب اٹھا کے کہاں سے کہاں پہ پھینک آیا
جو بادشاہ تھا کل تک، "گدا" بنا ہوا ہے

اگر عذاب ہے تو پھر عذاب ہونے دو

اگر عذاب ہے تو پھر عذاب ہونے دو
ہر اک بشر کا کڑا احتساب ہونے دو
یہ زد میں آۓ تو مُنصف کو مار ڈالیں گے
جو کہہ رہے ہیں کہ سب کا حساب ہونے دو
جو پارسا ہیں یہاں ان کے دیکھنا کرتوت
بس ایک بار انہیں بے نقاب ہونے دو

بغض اگلتا ہے وہی جو بھی یہاں بولتا ہے

بغض اگلتا ہے وہی جو بھی یہاں بولتا ہے
ہر بشر دشنہ و خنجر کی زباں بولتا ہے
پکڑا جائے گا اگر تُو کبھی سچ بول پڑا
جھوٹ اتنا تیرے لہجے سے رواں بولتا ہے
تُو منافق ہے منافق ہے منافق ہے دوست
میں یہاں بولتا ہوں سن کے وہاں بولتا ہے

لوگ لہجہ میرا تلوار سمجھ لیتے ہیں

لوگ، لہجہ میرا تلوار سمجھ لیتے ہیں
میرے لفظوں کو مرا وار سمجھ لیتے ہیں
جنگ میں غیر کو بھی پانی پلا دیتا ہوں
یوں بھی اپنے مجھے غدار سمجھ لیتے ہیں
میں دکھاوے کی عبادت نہیں کرتا یوں بھی
پارسا مجھ کو گنہگار سمجھ لیتے ہیں

عجلت میں دن گزار کے یوں شب کے ہو گئے

عجلت میں دن گزار کے یوں شب کے ہو گئے
مٹی پہ خود کو پھینک دیا اور سو گئے
دونوں کو مار دے گا یہ مشترکہ المیہ
مجبور بھی نہیں تھے مگر دور ہو گئے
وہ لوگ ہائے آنکھ کی بینائی جیسے لوگ
پل بھر کو میرے ہاتھ لگے اور کھو گئے

ہماری شکل اب اول تو پہچانی نہیں جاتی

ہماری شکل اب اول تو پہچانی نہیں جاتی
کوئی پہچان لے تو اس کی حیرانی نہیں جاتی
مسلسل ہی یہیں پر ہے تعلق اتنا گہرا ہے
میں خود باہر چلا جاتا ہوں ویرانی نہیں جاتی
تمہاری بات رد کرنے کا سوچا تھا نہ سوچا ہے
میں اب بھی مان لیتا مجھ سے اب مانی نہیں جاتی

چاند تاروں بھرے تالاب نہیں دیکھیں گے

چاند تاروں بھرے تالاب نہیں دیکھیں گے
آپ جنت میں بھی پنجاب نہیں دیکھیں گے
جن کو جنت بھی ملی ان کا خسارا یہ ہے
اب وہ جنت کے کبھی خواب نہیں دیکھیں گے
کوئی اقرار یا انکار نہیں چمکے گا
شام آئے گی تو مہتاب نہیں دیکھیں گے

Tuesday, 26 November 2019

اب جیون خالی کاسہ ہے

اب جیون خالی کاسہ ہے
اب گنتی کی کچھ سانسیں ہیں
اب تھوڑے دنوں کا میلہ ہے
بازار اجڑنے والا ہے
اب مال متاع ختم ہوا
اب تم بازار میں آئے ہو

Friday, 22 November 2019

اچھے خاصے دکھتے ہو بیماری میں

اچھے خاصے دِکھتے ہو بیماری میں
یعنی، تم بھی ماہر ہو فن کاری میں
ایک تمہارے نام کی خوشبو زندہ ہے
مر گئی دیمک لکڑی کی الماری میں
جیسے ہی وہ لڑکی آئی، لوگوں نے
دھوپ اترتے دیکھی ژالہ باری میں

کھڑکیاں کھول رہا تھا کہ ہوا آئے گی

کھڑکیاں کھول رہا تھا کہ ہوا آئے گی
کیا خبر تھی کہ چراغوں کو نگل جائے گی
مجھ کو اس واسطے بارش نہیں اچھی لگتی
جب بھی آئے گی، کوئی یاد اٹھا لائے گی
اس نے ہنستے ہوئے کر لی ہیں علیحدہ راہیں
میں سمجھتا تھا کہ بچھڑے گی تو مر جائے گی

شاید کسی بلا کا تھا سایہ درخت پر

شاید کسی بلا کا تھا سایہ درخت پر
چڑیوں نے رات شور مچایا درخت پر
موسم تمہارے ساتھ کا جانے کدھر گیا
تم آئے اور بُور نہ آیا درخت پر
دیکھا نہ جائے دھوپ میں جلتا ہوا کوئی
میرا جو بس چلے کروں سایہ درخت پر

نہیں کہ ذکرِ مہ و مہر ہی ضروری ہے

نہیں کہ ذکرِ مہ و مہر ہی ضروری ہے
پسِ حروف سہی روشنی ضروری ہے
کہیں سے لاؤ کسی زلفِ عنبریں کی ہوا
یہ اب جو حبس ہے اس میں کمی ضروری ہے
اب اس کے قد کے برابر اسے بھی لایا جائے
یہ بات کتنی ہی مشکل سہی ضروری ہے

روشنی حسب ضرورت بھی نہیں مانگتے ہم

 روشنی حسبِ ضرورت بھی نہیں مانگتے ہم

رات سے اتنی سہولت بھی نہیں مانگتے ہم

عمر بھر کوہ کنی کر کے صلہ مانگتے ہیں

مُفت میں تیری محبت بھی نہیں مانگتے ہم

دشمنِ شہر کو آگے نہیں بڑھنے دیتے

اور کوئی تمغۂ جرأت بھی نہیں مانگتے ہم

Thursday, 21 November 2019

وہ نہیں ملتا مجھے اس کا گلہ اپنی جگہ

وہ نہیں ملتا مجھے، اس کا گلہ اپنی جگہ
اس کے میرے درمیاں کا، فاصلہ اپنی جگہ
زندگی کے اس سفر میں، سینکڑوں چہرے ملے
دل کشی ان کی الگ، پیکر تیرا اپنی جگہ
تجھ سے مل کر، آنے والے کل سے نفرت مول لی
اب کبھی تجھ سے نہ بچھڑوں، یہ دعا اپنی جگہ

Wednesday, 20 November 2019

آوارگی میں محسن اس کو بھی ہنر جانا

آوارگی میں محسن اس کو بھی ہنر جانا
اقرار وفا کرنا، پھر اس سے مکر جانا
جب خواب نہیں کوئی، کیا زندگی کرنا
ہر صبح کو جی اٹھنا، ہر رات کو مر جانا
شب بھر کے ٹھکانے کو اک چھت کے سوا کیا ہے
کیا وقت پہ گھر جانا، کیا دیر سے گھر جانا

اے شب ہجر یاراں مرے پاس آ

اے شبِ ہجرِ یاراں مِرے پاس آ
میرے پہلو میں سو جا 
کہ میں بھی تو بھری بزم میں ہوں اکیلا بہت
میرے پہلو میں سو جا کہ شاید مِرے دکھ کی آغوش میں
تجھ کو سکھ سانس لینے کی فرصت ملے
تجھ کو لوری سنائے اداسی میری

اے مری بے سہاگ تنہائی

اے مِری بے سہاگ تنہائی

اس سے پہلے کہ سوچ کا کندن
شامِ غم کے اجاڑ صحرا میں
جل بجھے، بجھ کے راکھ ہو جائے
اس سے پہلے کہ چاند کا جھومر
درد کی جھیل میں اتر جائے

Tuesday, 19 November 2019

زاہد بدل گیا ہے سیانا بدل گیا

زاہد بدل گیا ہے سیانا بدل گیا
ڈنکے کی چوٹ پر ہے زمانہ بدل گیا
الٹا ہماری نسل نے سارا نظام یوں
اپنے بڑوں سے بچوں کا رتبہ بدل گیا
کہہ دو مسافروں سے نہ آئیں وہ لوٹ کر
رستہ یہ ان کے جاتے ہی رستہ بدل گیا

سب گناہ و حرام چلنے دو

سب گناہ و حرام چلنے دو
کہہ رہے ہیں نظام چلنے دو
ضد ہے کیا وقت کو بدلنے کی
یونہی سب بے لگام چلنے دو
بیکسی، بھوک اور مصیبت کا
خوب ہے اہتمام چلنے دو

سارے پردے گریں دیدار تلک پہنچوں میں

سارے پردے گریں دیدار تلک پہنچوں میں
اے مقابل! تِرے کردار تلک پہنچوں میں
دنیا والے مجھے عزت کی نظر سے دیکھیں
کتنا گر جاؤں کہ معیار تلک پہنچوں میں 
بھوک اور ننگ! تِری کون بھلا سنتا ہے
یعنی مر جاؤں تو سرکار تلک پہنچوں میں

پاس آیا کبھی اوروں کے کبھی دور ہوا

پاس آیا کبھی اوروں کے کبھی دور ہوا
گو کہ معمولی سا مہرہ تھا
مگر جیت گیا
یوں اک روز وہ بڑا مہرہ بنا
اب وہ محفوظ ہے اک خانے میں
اتنا محفوظ کہ دشمن تو الگ

Monday, 18 November 2019

سوہنی گھاٹ بدل سکتی تھی

سوہنی گھاٹ بدل سکتی تھی
اور کہانی چل سکتی تھی
رانجھا غنڈے لے آتا، تو
ہیر کی شادی ٹل سکتی تھی
سسّی کے بھی اونٹ جو ہوتے
تھل میں کیسے جل سکتی تھی

Sunday, 17 November 2019

کبھی تو سانس تری یاد سے جدا نکلے

کبھی تو سانس تِری یاد سے جدا نکلے
ہماری شب کے مقدر سے رتجگا نکلے
عجب نہیں کہ مِرے بعد میرا کُل ترکہ
ہرا بھرا سا بس اک زخم اور دِیا نکلے
بھنور نے گھیر لیا ہے، سو بچ نہ پاؤں گا
یہ عشق کھیل نہیں ہے کہ راستہ نکلے

Saturday, 16 November 2019

جو ذرا معتبر ہوا ہے یہاں اس کا پھر اعتبار مشکل ہے

جو ذرا معتبر ہوا ہے یہاں
اس کا پھر اعتبار مشکل ہے
ایک دو بار دھوکا چلتا ہے
یار! یہ بار بار مشکل ہے
ہر کوئی بیچنے ہی نکلا ہے
اس جگہ کاروبار مشکل ہے

سچ بھی مقدار میں ہی ملتا ہے

سچ بھی مقدار میں ہی ملتا ہے
سارا کہہ دوں یا جِتنا میٹھا ہے
میں نے چکھا ہے میری بستی میں
زہر میٹھا ہے، شہد کڑوا ہے
رونا بے کار تو نہیں جاتا
اپنی گڑیا سے میں نے سیکھا ہے

چائے پی اور شرافت سے کھسک لے پگلی

چائے والا

چائے پی اور شرافت سے کھسک لے پگلی
چائے کے بیس روپے ہیں تو وہ دیتی جانا
کیا کہا، تُو نے دکھانی ہے مجھے دنیا نئی
کیا کہا، تُو نے مجھے رنگ نیا دینا ہے؟
کیا کہا، میری جگہ چائے کا ہوٹل تو نہیں
آنکھ نیلم ہے مِری رنگ ہے سونے جیسا

واہمہ؛ رات جاگی تو کہیں صحن میں سوکھے پتے

واہمہ

رات جاگی تو کہیں صحن میں سوکھے پتے
چرمرائے کہ کوئی آیا،۔ کوئی آیا ہے
اور ہم شوق کے مارے ہوئے دوڑے آئے
گو کہ معلوم ہے، تُو ہے نہ تیرا سایا ہے

ہم کہ دیکھیں کبھی دالان، کبھی سوکھا چمن
اس پہ دھیمی سی تمنا کہ پکارے جائیں

کبھی جو دل گرفتہ ہوں تو یونہی ٹھان لیتا ہوں

کبھی جو دل گرفتہ ہوں تو یونہی ٹھان لیتا ہوں
کہ کیمپس کے سبھی ڈھابوں سے کچے نان لیتا ہوں
تمہاری آنکھ میں جادو؟ نہیں ہرگز نہیں، لیکن
چلو تم زور دیتے ہو تو یہ بھی مان لیتا ہوں
مگر تم بھی نا جاناں کس قدر بھولی ہو، بدھو ہو
میں ہفتوں نہ نہا کر بس تمہاری جان لیتا ہوں

اے کہ وجہ سخن

اے کہ وجہِ سخن
جان و رنگِ غزل
کائناتی محبت کا ردِ عمل
اے اداسی کے ہونے میں واحد خلل
تجھ سے نادم ہوں میں
میرے وہم و گماں میں

نقصان

نقصان

جو بات گنتی کے کچھ دنوں سے شروع ہوئی تھی
وہ سالہا سال تک چلی ہے
کئی زمانوں میں بٹ گئی ہے
میں ان زمانوں میں لمحہ لمحہ تمہاری نظروں کے بن رہا ہوں
میں اب تلک بھی تمہارے جانے کا باقی نقصان گن رہا ہوں

سنا ہے تلخئ ایام سے لاچار ہو چکے

سنا ہے تلخئ ایام سے لاچار ہو چکے
برباد ہو چکے، وہ بے زار ہو چکے
گر یوں ہے
تو بے تشنہ و آباد کیوں نہ ہم
سرِ عام کوئی ہجر کا ازالہ کر چلیں
بڑی مشکل سے، اپنے دل سے

Friday, 15 November 2019

یہ عشق کرتی اداس نسلوں کا کیا بنے گا

فقیر، موجی، خراب حالوں کا کیا بنے گا
یہ عشق کرتی اداس نسلوں کا کیا بنے گا
ہمارے پُرکھوں نے ہم سے بہتر گزار لی ہے
میں سوچتا ہوں ہمارے بچوں کا کیا بنے گا
ہمارے جسموں کا خاک ہونا تو ٹھیک ہے، پر
تمہاری آنکھوں تمہارے ہونٹوں کا کیا بنے گا

تخت والے ہو تاج والے ہو

تخت والے ہو تاج والے ہو
یہ بتاؤ! کہ لاج والے ہو؟
تم نہ بیٹھو ہماری صحبت میں
تم ذرا کام کاج والے ہو
واقعے کا بھی علم ہے کوئی
یا، فقط احتجاج والے ہو؟

اک نظر سامنے وہ آئے ذرا

اک نظر سامنے وہ آئے ذرا
دل کہیں ٹِک کے بیٹھ جائے ذرا
گاؤں میں ہر طرف اداسی ہے 
اس سے کہنا کہ مسکرائے ذرا
دوست گاڑی تو مل ہی جائے گی
بیٹھ پِیتے ہیں چائے شائے ذرا

یار تھا وہ نہ یار نکلے ہم

یار تھا وہ، نہ یار نکلے ہم
ایک دوجے پہ بار نکلے ہم
اک تعلق بچا نہیں پائے
ایک رنجش کی مار نکلے ہم
اور پھر اشک بن گئے اک دن
اور پھر بے شمار نکلے ہم

Thursday, 14 November 2019

کب غم کہے سنے سے کسی بات سے گیا

کب غم کہے سنے سے، کسی بات سے گیا
میں رات تھا، اندھیرا کبھی رات سے گیا
پہلے پہل تھا اس کا محبت سے دل بھرا
پھر رفتہ رفتہ ساری شکایات سے گیا
جانے یہ کیسے فاصلے آئے ہیں درمیاں
مجھ میں جو بس رہا تھا، ملاقات سے گیا

اب تک یہی سنا تھا کہ بازار بک گئے

اب تک یہی سنا تھا کہ بازار بک گئے
اس کی گلی گئے تو خریدار بک گئے
لگنے لگیں ہیں مجھ سے بھی ناقص کی بولیاں
یعنی جہاں کے سارے ہی شہکار بک گئے
جس نے ہمیں خریدا، منافع کما لیا
اپنا ہے یہ کمال کہ ہر بار بک گئے

ٹوٹی پھوٹی تباہ مل جائے

ٹوٹی پھوٹی تباہ مل جائے
کوئی جینے کی راہ مل جائے
مان لوں گا کہ جی رہا ہوں میں
ایک بھی گر گواہ مل جائے
کچھ ہماری بھی راہ روشن ہو
آپ سے گر نگاہ مل جائے

Wednesday, 13 November 2019

ملاحوں کا دھیان بٹا کر دریا چوری کر لینا ہے

ملاحوں کا دھیان بٹا کر دریا چوری کر لینا ہے
قطرہ قطرہ کر کے میں نے سارا چوری کر لینا ہے
تم اس کو مجبور کیے رکھنا باتیں کرتے رہنے پر
اتنی دیر میں میں نے اس کا لہجہ چوری کر لینا ہے
میرے خاک اڑانے پر پابندی عائد کرنے والو
میں نے کون سا آپ کے شہر کا رستہ چوری کر لینا ہے

وہی بارش کا موسم ہے

وہی بارش کا موسم ہے
وہی برسے ہوئے غم ہیں
وہی نادان سے ہم ہیں
وہی کاغذ کی کشتی ہے
وہی پانی کے ریلے ہیں
میرے بچپن زرا دیکھو
وہی پھر کھیل کھیلا ہے

زخم دیتے ہو کہتے ہو سیتے رہو

زخم دیتے ہو کہتے ہو سیتے رہو 
جان لے کر کہو گے کہ جیتے رہو 
پیار جب جب زمین پر اتارا گیا 
زندگی تجھ کو صدقے میں وارا گیا 
پیار زندہ رہا مقتلوں میں، مگر 
پیار جس نے کیا ہے وہ مارا گیا 

میں بزنس مین ہوں جاناں میں چھوٹا سا بیوپاری ہوں

 میں بزنس مین ہوں جاناں


میری شہرت، میرا ڈنکا، میرے اعزاز کا سن کر 

کبھی یہ نہ سمجھ لینا میں چوٹی کا لکھاری ہوں

میں بزنس مین ہوں جاناں، میں چھوٹا سا بیوپاری ہوں

میری آڑھت پہ برسوں سے جو مہنگے داموں بکتا تھا 

تیرے غم کا سودا تھا 

یہ جو سر نیچے کئے بیٹھے ہیں

یہ جو سر نیچے کیے بیٹھے ہیں
جان کتنوں کی لیے بیٹھے ہیں
جان ہم سبزۂ خط پر دے کر
زہر کے گھونٹ پیے بیٹھے ہیں
دل کو ہم ڈھونڈتے ہیں چار طرف
اور یہاں آپ "لیے" بیٹھے ہیں

لاکھ دل مست ہو مستی کا عیاں راز نہ ہو

لاکھ دل مست ہو مستی کا عیاں راز نہ ہو
یہ وہ شیشہ ہے کہ ٹوٹے بھی تو آواز نہ ہو
خوف ہے موسمِ گل میں کہ صبا کا جھونکا
طائرِ ہوش کے حق میں پرِ پرواز نہ ہو
دل بہت بلبلِ شیدا کا ہے نازک گلچیں
پھول گلزار کے یوں توڑ کہ آواز نہ ہو

ایک دن بھی تو نہ اپنی رات نورانی ہوئی

ایک دن بھی تو نہ اپنی رات نورانی ہوئی
ہم کو کیا اے مہ جبیں! گر چاند پیشانی ہوئی
سرد مہری کا تِری ساقی! نتیجہ یہ ہوا
آگ کے مولوں جو بکتی تھی وہ مے پانی ہوئی
اللہ اللہ پھوٹ نکلا رنگ چاہت کا مِری
زہر کھایا میں نے پوشاک آپ کی دھانی ہوئی

قاصد آیا مگر جواب نہیں

قاصد آیا، مگر جواب نہیں 
میرے لکھے کا بھی جواب نہیں 
خُم تو ہے ساقیا شراب نہیں 
آسماں ہے، اور آفتاب نہیں 
بن کے بت سب وہ کہہ گزرتے ہیں 
بے دہانی تِرا جواب نہیں 

Tuesday, 12 November 2019

فضا میں کیسی اداسی ہے کیا کہا جائے

فضا میں کیسی اداسی ہے، کیا کہا جائے 
عجیب شام یہ گزری ہے، کیا کہا جائے 
کئی گمان ہمیں زندگی پہ گزرے ہیں 
یہ اجنبی ہے کہ اپنی ہے، کیا کہا جائے 
وہ دھوپ دشمنِ جاں تھی سو تھی خموش تھے ہم 
یہ چاندنی ہمیں ڈستی ہے، کیا کہا جائے 

غم و نشاط کی ہر رہ گزر میں تنہا ہوں

غم و نشاط کی ہر رہ گزر میں تنہا ہوں 
مجھے خبر ہے میں اپنے سفر میں تنہا ہوں 
مجھی پہ سنگِ ملامت کی بارشیں ہوں گی 
کہ اس دیار میں شوریدہ سر میں تنہا ہوں 
تِرے خیال کے جگنو بھی ساتھ چھوڑ گئے 
اداس رات کے سُونے کھنڈر میں تنہا ہوں 

چڑھتے دریا سے بھی گر پار اتر جاؤ گے

چڑھتے دریا سے بھی گر پار اتر جاؤ گے
پانو رکھتے ہی کنارے پہ بکھر جاؤ گے
وقت ہر موڑ پہ دیوار کھڑی کر دے گا
وقت کی قید سے گھبرا کے جدھر جاؤ گے
خانہ برباد سمجھ کر ہمیں ڈھلتی ہوئی رات
'طنز سے پوچھتی ہے، 'کون سے گھر جاؤ گے

جانب کوچہ و بازار نہ دیکھا جائے

جانبِ کوچہ و بازار نہ دیکھا جائے 
غور سے شہر کا کردار نہ دیکھا جائے
کھڑکیاں بند کریں چھپ کے گھروں میں بیٹھیں
کیا سماں ہے، پسِِ دیوار نہ دیکھا جائے 
سرخیاں خون میں ڈوبی ہیں سب اخباروں کی 
آج کے دن کوئی اخبار نہ دیکھا جائے 

نہ اب وہ عشق نہ وہ عشق کی ادائیں رہیں

نہ اب وہ عشق نہ وہ عشق کی ادائیں رہیں 
نہ اب وہ حسن نہ وہ حسن کی ہوائیں رہیں 
نہ عشق عشق رہا اب نہ حسن حسن رہا 
نہ وہ وفائیں رہیں اب، نہ وہ جفائیں رہیں 
وہ حسن و عشق کے راز و نیاز ہی نہ رہے 
نہ وہ خطائیں رہیں اب، نہ وہ سزائیں رہیں