Friday 17 October 2014

اس قدر رات گئے، کون ملاقاتی ہے

اِس قدر رات گئے، کون ملاقاتی ہے
ایسا لگتا ہے، کوئی یاد چلی آتی ہے
مَیں نے چاہا، نہ کہا اور نہ خواہش کی کبھی
تیرے کُوچے میں تِری آب و ہوا لاتی ہے
یہ ستارے تو یونہی ساتھ چلے آئے ہیں
ورنہ یہ چاند اکیلا مِرا باراتی ہے
میں تو دشمن کے بچھڑنے پہ بھی رویا ہوں بہت
تُو تو پھر یار ہے اور یار بھی جذباتی ہے
کس قدر گھاؤ ہیں، معلوم نہیں ہے کہ ابھی
جسم سے رُوح کا رشتہ تو مضافاتی ہے
صفحۂ دہر پہ فطرت نے لِکھا ہے مِرا نام
تم سمجھتے ہو کہ یہ فیصلہ لمحاتی ہے

سلیم کوثر 

No comments:

Post a Comment