نہ ہونے پر بھی کوئی آسرا غنیمت ہے
وہ بے بسی ہے کہ یادِ خدا غنیمت ہے
یہاں کِسی کو کِسی کی خبر نہیں ملتی
بس ایک رشتۂ آب و ہوا غنیمت ہے
اندھیری رات کے اِس بیکراں تسلسل میں
جلا دیا جو کسی نے دِیا، غنیمت ہے
تمام راہیں ہوئیں گردِ ممکنات میں گُم
مسافروں کو تِرا نقشِ پا غنیمت ہے
وہ کوئی زہر کا پیالہ ہو یا صلیب کی رسم
ہوئی جہاں سے بھی یہ اِبتدا، غنیمت ہے
سلیمؔ اگر کوئی عینی گواہ مل جائے
تِرے علاوہ یا میرے سوا، غنیمت ہے
وہ بے بسی ہے کہ یادِ خدا غنیمت ہے
یہاں کِسی کو کِسی کی خبر نہیں ملتی
بس ایک رشتۂ آب و ہوا غنیمت ہے
اندھیری رات کے اِس بیکراں تسلسل میں
جلا دیا جو کسی نے دِیا، غنیمت ہے
تمام راہیں ہوئیں گردِ ممکنات میں گُم
مسافروں کو تِرا نقشِ پا غنیمت ہے
وہ کوئی زہر کا پیالہ ہو یا صلیب کی رسم
ہوئی جہاں سے بھی یہ اِبتدا، غنیمت ہے
سلیمؔ اگر کوئی عینی گواہ مل جائے
تِرے علاوہ یا میرے سوا، غنیمت ہے
سلیم کوثر
No comments:
Post a Comment