Friday, 17 October 2014

دل کو پیہم وہی اندوہ شماری کرنا

دل کو پیہم وہی اندوہ شماری کرنا
ایک ساعت کو شب و روز پہ طاری کرنا
اب وہ آنکھیں نہیں ملتیں کہ جنہیں آتا تھا
خاک سے دل جو اٹے ہوں انہیں جاری کرنا
موت کی ایک علامت ہے، اگر دیکھا جائے
روح کا چار عناصر پہ سواری کرنا
تُو کہاں مرغِ چمن، فکرِ نشیمن میں پڑا
کہ تِرا کام تو تھا نالہ و زاری کرنا
ہوں میں وہ لالۂ صحرا کہ ہوا میرے سپرد
دشت میں پیرویٔ بادِ بہاری کرنا
اس سے پہلے کہ یہ سودا مِرے سر میں نہ رہے
دستِ قاتل کو عطا ضربتِ کاری کرنا
یہ جو ٹپکا ہے زباں پر سو کرم ہے تیرا
اب رگ و پے میں اسے جاری و ساری کرنا
بخشنا لعل و جواہر سے سوا تابِ سخن
خاک کو انجمِ افلاک پہ بھاری کرنا

خورشید رضوی

No comments:

Post a Comment