Friday 17 October 2014

پھر وہ گم گشتہ حوالے مجھے واپس کر دے

پھر وہ گم گشتہ حوالے مجھے واپس کر دے
وہ شب و روز، وہ رشتے مجھے واپس کر دے
آنکھ سے دل نے کہا، رنگِ جہاں شوق سے دیکھ
میرے دیکھے ہوئے سپنے مجھے واپس کر دے
میں تجھے دوں تِری پانی کی لکھی تحریریں
تُو وہ خونناب نوشتے مجھے واپس کر دے
میں شب و روز کا حاصل اُسے لوٹا دوں گا
وقت اگر میرے کھلونے مجھے واپس کر دے
مجھ سے لے لے صدف و گوہر و مرجاں کا حساب
اور وہ غرقاب سفینے مجھے واپس کر دے
نسخۂ مرہمِ اکسیر بتانے والے
تُو مِرا زخم تو پہلے مجھے واپس کر دے
ہاتھ پر خاکۂ تقدیر بنانے والے
یوں تہی دست نہ در سے مجھے واپس کر دے
آسماں! صبح کے آثار سے پہلے پہلے
میری قسمت کے ستارے مجھے واپس کر دے
میں تِری عمرِ گزشتہ کی صدا ہوں خورشیدؔ
اپنے ناکام ارادے مجھے واپس کر دے

خورشید رضوی

No comments:

Post a Comment