Friday 17 October 2014

کچھ حال نہیں کھلتا میرا زندہ ہوں تو کیسا زندہ ہوں

کچھ حال نہیں کھلتا میرا زندہ ہوں تو کیسا زندہ ہوں
ماضی کی طرح میں بیت چکا یا صورتِ فردا زندہ ہوں
اطراف میں ایسی تاریکی، جگنو بھی نہیں آنسو بھی نہیں
اے شامِ دعا! اب روشن ہو، میں شام سے تنہا زندہ ہوں
دیواروں سی دیواریں ہیں، اندیشوں سے اندیشے ہیں
سایوں میں گھرا بیٹھا ہوں مگر کتنا بے سایہ زندہ ہوں
آزار لئے سمجھوتے کا، کچھ سہل نہیں جینا مرنا
اندر سے مکمل ٹوٹ چکا باہر سے سراپا زندہ ہوں
آنکھوں میں نمی آتی ہی نہیں، ہونٹوں سے ہنسی جاتی ہی نہیں
اے وقت پلٹ کے دیکھ کے میں تصویر میں کتنا زندہ ہوں
آنگن میں گم صم بیٹھا ہوں بے اسبابی کا رنج لئے
سناٹا باتیں کرتا ہے مجھ سے میں گویا زندہ ہوں
اوّل تو کوئی پوچھے گا نہیں، اس شہر میں میرے بارے میں
بالفرض یہ مشکل آن پڑے عاصمؔ تو یہ کہنا زندہ ہوں

لیاقت علی عاصم

No comments:

Post a Comment